Maktaba Wahhabi

494 - 728
حامد و عزیزانِ حامد یہ کہتے ہیں کہ ہم کو یقینِ کامل ہے کہ مادرِ محمودہ نے حامد کو ہر گز دودھ نہیں پلایا ہے اور وجہ یقین کی یہ ہے کہ حامد و محمودہ و مادر محمودہ رشتہ داران قریبی ہیں ، پس ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ احتیاط مذکورہ فتاویٰ عالمگیری مقتضی اس کی ہے کہ نکاح حامد کا ساتھ دختر محمودہ کے کیا جائے یا نہیں ؟ اگر نکاح ہو گیا ہو تو احتیاط مذکور کا کیا مقتضا ہے اور اس صورت میں رضاعت متذکرہ میں شک پیدا ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہوسکتا ہے تو ترک کرنے والے پر بمقتضائے احتیاط مرقومہ بالا کے کیا حکم ہو سکتا ہے؟ جواب: عبارت منقولہ عالمگیری اس صورت سے متعلق ہے، جہاں عورت کا اپنے پستان کو لڑکے کے منہ میں دینا ثابت ہے اور صورت مسؤلہ میں اس کا کوئی ثبوت مذکور نہیں ہے، صرف شوہر محمودہ کا یہ بیان ہے کہ ’’خالہ حامد نے مجھے بحلف بیان کیا تھا کہ مادر محمودہ نے حامد کے منہ میں اپنے پستان کو دیا تھا۔‘‘ جس کا خود خالہ حامد بحلف انکار کرتی اور کہتی ہے کہ ’’میں نے شوہر محمودہ سے یہ بات نہیں کہی تھی اور نہ میں نے دودھ پلاتے یا منہ میں پستان دیتے دیکھا ہے۔‘‘ پس ایسی حالت میں اگر شوہر محمودہ کو اپنی یاد پر پورا اطمینان ہو، یعنی اس کو خوب یاد ہو کہ خالہ حامد نے اس سے بحلف کہا تھا کہ ’’مادرِ محمودہ نے حامد کے منہ میں اپنے پستان کو دیا تھا‘‘ تو ایسی حالت میں عبارت مذکورہ صورت مسؤلہ سے متعلق ہے، جس کا مقتضی یہ ہے کہ شوہر محمودہ کو اپنی دختر کا نکاح جو بطن محمودہ سے ہے، حامد سے کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کر چکا ہو تو تفریق واجب ہے اور اگر شوہر محمودہ کو اپنی یاد پر اطمینان نہ ہو تو عبارت مذکورہ صورت مسؤلہ سے متعلق نہیں ہے، اس حالت میں مادرِ محمودہ کا اپنے پستان کو حامد کے منہ میں دینا اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس سوال کے متعلق ایک اور بات قابل لحاظ ہے، وہ یہ کہ سوال میں مادرِ محمودہ کے دو متناقض بیان درج ہوئے ہیں ، پہلا بیان تو یہ ہے کہ میں نے حامد کو دودھ پلایا ہے اور دوسرا بیان یہ ہے کہ میں نے دودھ نہیں پلایا ہے، پس اگر مادرِ محمودہ کا بیان سابق ثابت ہے تو وہی بیان معتبر ہوگا اور بیان لاحق، اس وجہ سے کہ یہ بیان سابق سے رجوع ہے، غیر مسموع و نامعتبر ہوگا اور جب اس صورت میں بیان سابق ہی معتبر ہوا تو حسبِ حدیث صحیح نکاح حامد کا دخترِ محمودہ کے ساتھ ناجائز ہوا اور اگر نکاح ہوگیا ہو تو تفریق واجب ہوئی۔ مشکوۃ شریف (ص: ۲۶۵ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’عن عقبۃ بن الحارث رضی اللّٰه عنہ أنہ تزوج ابنۃ لأبي إھاب بن عزیز، فأتت امرأۃ فقالت: قد أرضعت عقبۃ والتي تزوج بھا، فقال لھا عقبۃ: ما أعلم أنک قد أرضعتني ولا أخبرتني، فأرسل إلی آل أبي أھاب فسألھم فقالوا: ما علمنا أرضعت صاحبتنا، فرکب إلی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بالمدینۃ فسألہ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( کیف وقد قیل؟ )) ففارقھا عقبۃ، ونکحت زوجا غیرہ‘‘[1](رواہ البخاري) [عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی (ام یحییٰ) سے شادی کی تو اس کے پاس ایک عورت نے آکر کہا: میں نے عقبہ کو اور اس کو جس سے عقبہ نے شادی کی ہے، دودھ پلایا
Flag Counter