Maktaba Wahhabi

560 - 728
باقی رہا یہ امر کہ زید کی نیت بھی اس قول سے طلاق کی تھی یا نہیں ؟ سو واضح رہے کہ ضرور تھی اور یہ بہت ظاہر ہے، اس لیے کہ زید نے جو بات کہی تھی، ہندہ کے پوچھنے پر کہی تھی کہ تمھارے چلے جانے کے بعد میں کیا کروں گی؟ ایسی حالت میں ظاہر ہی ہے کہ زید کی نیت طلاق ہی کی تھی، یہاں تک کہ اگر زید بالفرض اس نیت سے انکار بھی کرے کہ میری نیت اس قول سے طلاق نہ تھی تو اس کا یہ قول اخیر مسموع نہ ہوگا۔ ہدایہ (۱/ ۳۵۴) میں ہے: ’’وفي حال مذاکرۃ الطلاق لم یصدق فیما یصلح جواباً ولا یصلح رد في القضاء، مثل قولہ خلیۃ، وبریۃ، بائن، بتۃ، حرام، اعتدي، أمرک بیدک، اختاري، لأن الظاھر أن مرادہ الطلاق عند سؤال الطلاق‘‘ اھ [اگر طلاق کا تذکرہ ہو رہا ہو اور مرد کوئی ایسی بات کہے، جو سوال کا جواب ہو سکے اور قضا میں ادا کے لیے صالح نہ ہو تو وہ اگر طلاق کا انکار کرے تو اس کو سچا نہ سمجھا جائے گا، جیسے تو خالی ہے تو بَری ہے تو بائن ہے تو بتہ ہے، تو حرام ہے، تجھے اختیار ہے، کیونکہ اس صورت میں ظاہراً اطلاق ہی مراد ہے، جب کہ وہ طلاق کا سوال کر رہی ہو] ظاہر ہے کہ زید کا قولِ مذکور ہندہ کے سوال کا جواب ہے، نہ ہندہ کے سوال کا رد اور نہ وہ رد ہونے کا صالح ہے، الحاصل ہندہ پر طلاق کنائی واقع ہو چکی ہے تو ہندہ کو شرعاً اختیار ہے کہ اگر عدت گزر چکی ہے تو ابھی عقد ثانی کر سکتی ہے، ورنہ بعد انقضائے عدت۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ اگر بالفرض زید کا قولِ مذکور طلاق قرار نہ دیا جائے، تو اگر زید نے ہندہ کے لیے نفقہ نہیں چھوڑا ہے، جیسا کہ عبارتِ سوال سے اس کا اشعار ہوتا ہے، تو اگر ایسی حالت میں ہندہ فسخِ نکاح کی طالب ہو تو شرعاً اس کے نکاح کے فسخ کر دینے کا حکم ہے اور جب نکاح فسخ کر دیا جائے تو انقضائے عدت کے بعد ہندہ عقدِ ثانی کر سکتی ہے۔ رد المحتار (۲/ ۱۰۱۵ چھاپہ مصر) میں فتاویٰ قاری الہدایہ سے منقول ہے: ’’حیث سئل عمن غاب زوجھا ولم یترک لھا نفقۃ فأجاب: إذا أقامت بینۃ علیٰ ذلک، وطلبت فسخ النکاح من قاض یراہ، ففسخ نفذ، وھو قضاء علی الغائب، وفي نفاذ القضاء علی الغائب روایتان عندنا، فعلیٰ القول بنفاذہ یسوغ للحنفي أن یزوجھا من الغیر بعد العدۃ، وإذا حضر الزوج الأول وبرھن علیٰ خلاف ما ادعت من ترکھا بلا نفقۃ لا تقبل بینتہ لأن البینۃ الأولیٰ ترجحت بالقضاء فلا تبطل بالثانیۃ‘‘ اھ [جب ان سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا گیا، جس کا شوہر غائب ہوجائے اور عورت کے لیے خرچ نہ چھوڑ جائے تو انھوں نے جواب دیا: جب عورت اس پر دلائل پیش کر کے ثابت کر دے اور فسخِ نکاح کا مطالبہ کرے تو میرے خیال میں قاضی اگر فسخ کر دے تو یہ فیصلہ نافذ ہوگا۔ یہ قضا علی الغائب کی قبیل سے ہے اور قضاء علی الغیب کے نفاذ میں ہمارے نزدیک دو روایتیں ہیں ۔ اس کے نفاذ کی روایت کے مطابق حنفی کو جائز ہے کہ عدت کے بعد اس عورت کا نکاح کسی اور سے کر دے۔ اگر اس کے بعد اس کا
Flag Counter