آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور متابعت کو فرض نہیں قرار دیتے بلکہ آپ کی صرف ان باتوں میں تصدیق کرتے ہیں جن میں آپ نے قرآن کا ابلاغ کیا ہے جبکہ آپ کی ترویج شدہ سنت کی ان باتوں کو نہیں مانتے ان کے زعم میں قرآن کے ظاہر کے خلاف ہیں۔ خوارج کے علاوہ بھی بیشتر اہل بدعات حقیقت میں خوارج ہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں کیونکہ ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قول کے برخلاف کہا ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرتے۔
(2) خوارج اور اہل بدعات کا دوسرا خاصہ یہ ہے کہ وہ گناہوں(ذنوب اور سیئات)کی بناء پر تکفیر کرتے ہیں پھر اس تکفیر کی بناء پر یہ احکام مترتب ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کے خون اور ان کے مال حلال ٹھہرتے ہیں۔ مسلمانوں کا علاقہ دارالحرب اور ان کا(خوارج وغیرہ)کا علاقہ دارالاسلام قرار پاتا ہے، یہی بات جمہور رافضہ کہتے ہیں اور یہی سوچ جمہور معتزلہ، جہمیہ اور اہل حدیث و اہل فقہ سے منسوب بعض غالیوں اور ان کے متکلمین کی ہے۔
یہ ہے بنیاد ان بدعات کی جو کہ سنت کی نص اور اجماع سلف کی رو سے بدعت ہیں یعنی غلطی کو گناہ اور بدی قرار دے دینا اور پھر گناہ کو کفر، مسلمان کو ان دونوں پر خبث بنیادوں سے بہت ہی بچ کر رہنا چاہیے اور ساتھ ان سے جنم لینے والی ان باتوں سے بھی جو کہ مسلمانوں سے بغض، ملامت و مذمت، نفرین و لعنت اور ان کے جان و مال کو حلال قرار دینے کی صورت میں سامنے آتی ہیں جو کہ سنت اور جماعت کے صریحاً خلاف ہیں۔ چنانچہ جو شخص سنت کی ترویج و تشریح کردہ امور کی مخالفت کرتا ہے وہ مبتدع(بدعتی)اور خارج از سنت ہے اور جو کسی ایسے امر کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے جسے وہ ذنب(گناہ)سمجھتا ہے،
|