Maktaba Wahhabi

235 - 377
آیت فردوہ الی اللّٰه والرسول ان کنتم تؤمنون باللّٰه والیوم الاخر تو دیکھ لی اور آپ کو یہ اب تلک معلوم نہ ہوا کہ جس قرآن مجید میں یہ آیت ہے اسی قرآن میں آیت مذکورہ بالا معروضہ احقر بھی موجود ہے۔ عجب نہیں کہ آ پ تو دونوں آیتوں کو حسب عادت متعارض سمجھ کر ایک کو ناسخ اور دوسرے کے منسوخ ہونے کا فتویٰ لگانے لگیں (ایضاح الادلہ: ص ۹۷،۹۸) غورکیجیے حضرت موصوف یوں بیان کر رہے ہیں کہ یہ گویا دو علیحدہ علیحدہ آیتیں ہیں۔ ایک فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰه والرسول ان کنتم تؤمنون بالله اوردوسری فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰه والرسول والی اولی الامر منکم اورفرما رہے ہیں کہ جس قرآن میں یہ آیت ہے اسی قرآن میں آیت مذکورہ بالامعروضہ احقر بھی موجود ہے۔ حالانکہ جو آیت انھوں نے پیش کی وہ قرآن پاک کی قطعاً آیت نہیں۔ پھر مکمل آیت بھی انھوں نے نہیں لکھی کہ یہ سمجھا جائے کہ کاتب سے غلطی ہوئی اور اس نے آیت کے پہلے حصے کے الفاظ آیت کے آخری حصہ سے ملا دیئے، جیسا کہ ڈیروی صاحب باور کروا رہے ہیں۔ بلکہ آیت میں تو واولی الامر ہے مگر جو آیت حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے لکھی اس میں وإلی اولی الامر ہے۔ یہ إلی کہاں سے آگیا اور کاتب نے کیسے نقل کر دیا ہے کہ اوپر کے حصہ میں تو یہ ہے ہی نہیں۔ اور اس حقیقت کا اظہار مولاناعامر عثمانی نبیر ہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اپنے ماہنامہ ’’تجلی‘‘ میں کیا، لکھتے ہیں: ’’کتابت کی غلطی اس لیے نہیں کہی جا سکتی کہ حضرت شیخ الہند کا استدلال ہی اس ٹکڑے پر قائم ہے جو اضافہ شدہ ہے اور آیت کا اسی اضافہ شدہ شکل کا قرآن میں موجود ہونا وہ شد و مد سے بیان فرما رہے ہیں۔’’اولی الامر‘‘ کے واجب الاتباع ہونے کا استنباط بھی اسی سے کر رہے ہیں اور حیرت درحیرت ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ اصل آیت نازل ہوئی تھی ان کے اضافہ کردہ فقرے اور اس کے استدلال نے بالکل الٹ دیا ہے۔‘‘(تجلی : ص ۶۱ فروری ۱۹۶۲ء)
Flag Counter