Maktaba Wahhabi

236 - 377
اور اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ ایضاح الادلہ پہلی بار ۱۲۹۹ھ میں میرٹھ سے طبع ہوئی ، پھر دوسری باری ۱۳۳۰ھ میں مولانا سید اصغر حسین صاحب کی تصحیح کے ساتھ مطبع قاسمی دیوبند سے طبع ہوئی اور تصحیح کی محنت میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ بھی ان کے معاون رہے۔ چنانچہ خود لکھتے ہیں:’’باوجود غوروفکر کے جس جگہ عبارت و مطالب فہم ناقص میں نہ آئے خود حضرت مؤلف مدظلہم سے استفادہ کرکے صحیح کیا۔‘‘ (ایضاح الادلہ، عنوان التماس ص ۳۹۶) گویا یہ آیت ان کی فہم کے مطابق بھی قرآن مجید میں موجود تھی۔ اگر اس بارے میں اشکال ہوتا تو حضرت شیخ الہند سے رجوع کرکے اس کی تصحیح کرتے ۔ اس کے بعد یہی کتاب کتب خانہ فخریہ امروہی دروازہ مراد آباد سے فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین کے حواشی کے ساتھ طبع ہوئی مگر اس پر سن طباعت درج نہیں۔اس ایڈیشن میں یہ خدمت بھی سرانجام دی گئی کہ مولانا فخر الدین صاحب نے حاشیے میں اضافہ شدہ آیت کا اردو ترجمہ بھی کر دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔! بتلائیے جس کی طباعت کا یہ اہتمام ہو اسے غریب کاتب کی غلطی قرار دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ سیدھے ہاتھوں یہ اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا کہ یہ حضرت شیخ الہند سے چوک ہوئی۔ اپنے مدمقابل کے جواب میں جو آیت انھوں نے لکھی وہ قرآن پاک میں کہیں نہیں۔ الله تعالیٰ بھلا کرے سید احمد پالن پوری صاحب کا کہ انھوں نے بالآخر تسہیل الادلہ کاملہ کے پیش لفظ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ: یہ سبقت قلم ہے،جس آیت کا حضرت رحمہ اللہ نے حوالہ دیا ہے اس سے مراد یہ آیت ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۔۔۔۔ ﴾الغرض یہ افسوسناک غلطی ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ دیوبند سے حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں صاحب کی تصحیح کے ساتھ ، او رمراد آباد سے فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب کے حواشی کے ساتھ یہ کتاب شائع ہوئی لیکن اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہ دی گئی بلکہ حضرت الاستاذ مولانا فخر الدین قدس سرہ نے ترجمہ بھی جوں کا توں کر دیا۔‘‘ (تسہیل الادلہ کاملہ: ص ۱۸،۱۹)
Flag Counter