Maktaba Wahhabi

62 - 191
مگر بہت تھوڑے۔‘‘ اور اُنہوں نے کہا:’’اِس میں سوار ہو جاؤ۔اللہ تعالیٰ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے۔یقینا میرے رب بے شک بہت معاف فرمانے والے نہایت مہربان ہیں۔ اور وہ پہاڑ کی مانند انہیں لہروں میں لیے جا رہی تھی۔ اور نوح-علیہ السلام-نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ(اُن سے)ہٹ کر تھا:’’اے میرے چھوٹے سے(یعنی پیارے)بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔‘‘ اُس نے کہا:’’میں عنقریب کسی پہاڑ کی جانب پناہ لوں گا(یعنی اُس پر چڑھ جاؤں گا)،(جو کہ)مجھے پانی سے بچا لے گا۔‘‘ انہوں نے کہا:’’آج اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں،مگر جس پر وہ رحم کریں۔‘‘ ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوئی،تو وہ غرق ہونے والوں میں سے ہو گیا۔] ان آیاتِ کریمہ میں یہ بات واضح ہے،کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو ڈوبنے تک دعوت دیتے رہے۔حضرت نوح علیہ السلام کا دعوت کی خاطر انتہائی اہتمام اور بیٹے کی ہدایت کے لیے شدید تڑپ درجِ ذیل سات باتوں میں نمایاں ہے: ا:بیٹا اپنے مشفق و مہربان باپ اور اہلِ ایمان کی سواری سے اتنا دُور ہو چکا تھا،کہ غم خوار اور ہمدرد باپ کا [اِرْکَبُوْا] [تم(کشتی میں)سوار ہو جاؤ] کا خطاب اس تک نہ پہنچتا تھا،لیکن بیٹے کی یہ لاتعلقی اور اعراض دعوت کو جاری رکھنے میں حضرت نوح علیہ السلام کے لیے رکاوٹ نہ بنا۔اسی بارے میں قاضی ابو سعود لکھتے ہیں: ’’(وَ کَانَ فِيْ مَعْزِلٍ)أَيْ فِيْ مَکَانٍ عَزَلَ فِیْہِ نَفْسَہٗ عَنْ أَبِیْہِ وَ إِخْوَتِہٖ وَ قَوْمِہٖ بِحَیْثُ لَمْ یَتَنَاوَلْہُ الْخِطَابُ بِ [اِرْکَبُوْا]،وَ
Flag Counter