Maktaba Wahhabi

95 - 191
لیے اس گفتگو اور وعظ کے بعد اُن میں آپس میں اختلاف ہو گیا۔(یعنی کچھ کی رائے میں موسیٰ علیہ السلام حق پر اور وہ خود باطل پر تھے اور کچھ کی رائے اس کے برعکس تھی]۔ ii:سید قطب رقم طراز ہیں: ’’وَ الْکَلِمَۃُ الصَّادِقَۃُ تَلْمَسُ بَعْضَ الْقُلُوْبِ وَ تَنْفُذُ فِیْہَا۔وَ یَبْدُوْ أَنَّ ہٰذَا الَّذِيْ کَانَ،فَقَدْ تَأَثَّرَ بَعْضُ السّحَرَۃِ بِالْکَلِمَۃِ الْمُخْلِصَۃِ،فَتَلَجْلَجَ فِيْ الْأَمْرِ۔‘‘[1] [’’کلمۂ صادقہ کچھ دلوں کو(جا کر)چھوتا ہے اور اُن میں سرایت کر جاتا ہے۔معلوم ہوتا ہے،کہ(یہاں)یہی ہوا۔اخلاص سے کہی ہوئی بات سے بعض جادوگر متاثر ہوئے اور ان کے موقف میں تذبذب آ گیا۔‘‘] iii:مفتی محمد شفیع نے تحریر کیا ہے: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ جملے سن کر ساحروں کی صفوں میں ایک زلزلہ پڑ گیا اور آپس میں اختلاف ہونے لگا،کہ یہ کلمات کوئی جادوگر نہیں کہہ سکتا۔یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں۔اس لیے بعض نے کہا:’’ان کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں۔‘‘ اور بعض اپنی بات پر جمے رہے۔‘‘[2] ۲۔سلیمان علیہ السلام کا ملکۂ سبأ کو حملہ کرنے سے قبل دعوتِ اسلام دینا: ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر دی،کہ سبأ کی حکمران ایک خاتون ہے۔وہ اور اس کی رعیّت اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے ہیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے دعوتِ اسلام کی غرض سے اس خاتون کو ایک مکتوب ارسال فرمایا۔رب کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter