Maktaba Wahhabi

94 - 191
۱۔ داعی-حضرت موسیٰ علیہ السلام-کے سینے میں مدّمقابل آنے والے بدترین دشمن کے لیے بھی ہدایت کی شدید تڑپ کا ہونا ۲۔ دعوت و احتساب میں مخاطب کی سرکشی اور طغیانی کے وقت حسبِ حالات [وَیْلَکُمْ] [تمہارا ستیاناس ہو] ایسے الفاظ استعمال کرنا ۳۔ اسلوب ترہیب کا استعمال ۴۔ ظاہری حالت کے ناموافق ہونے کے باوجود دعوت کو ترک نہ کرنا ۵۔ بسا اوقات انتہائی نامساعد صورتِ حال میں بھی دعوتی کلمات کا اثر انداز ہونا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلمات کی جادوگروں پر اثر افرینی درج ذیل ارشادِ تعالیٰ سے معلوم ہوتی ہے: ﴿فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰی﴾ [تو(یعنی یہ بات سُن کر)وہ اپنے معاملے میں آپس میں جھگڑ پڑے اور انہوں نے سرگوشی کو چھپایا(یعنی انہوں نے نہایت مخفی انداز سے سرگوشی کی)۔] اس حوالے سے بات کو اچھی طرح سمجھنے سمجھانے کی غرض سے توفیقِ الٰہی سے ذیل میں تین مفسرین کے اقوال درج کیے جا رہے ہیں۔ i:شیخ سعدی لکھتے ہیں: ’’وَ الظَّاہِرُ …وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ… أَنَّ مُوْسٰی علیہ السلام لَمَّا وَعَظَہُمْ أَثَّرَ مَعَہُمْ وَ وَقَعَ مِنْہُمْ مَوْقِعًا کَبِیْرًا،وَ لِہٰذَا تَنَازَعُوْا بَعْدَ ہٰذَا الْکَلَامِ وَ الْمَوْعِظَۃِ۔‘‘[1] [معلوم ہوتا ہے … اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں… کہ بے شک جب موسیٰ علیہ السلام نے انہیں وعظ کیا،تو ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے اُسے بہت بڑی حیثیت دی۔اسی
Flag Counter