Maktaba Wahhabi

66 - 191
مِنْ ذٰلِکَ بِالْاِلْتِجَآئِ عَلٰی بَعْضِ الْاَسْبَابِ الْعَادِیَۃِ۔[1] [’’انہوں نے لفظ [اَلْیَوْمُ] [یعنی آج دن] کا اضافہ فرما کر اس بات کی تنبیہ فرمائی،کہ اُس دن ہونے والا حادثہ دیگر ایام میں ہونے والے حوادث و واقعات کی مانند نہیں ہو گا،کہ جن سے بسا اوقات معمول کے اسباب استعمال کر کے چھٹکارا حاصل کر لیا جاتا ہے‘‘]۔ ز:حضرت نوح علیہ السلام نے [اَلْمَآء] [پانی] کو [أَمْرِ اللّٰہِ] [اللہ تعالیٰ کا حکم] کا نام دیا،تاکہ بیٹے کے لیے پانی کے ذریعے آنے والے عذاب کی سنگینی آشکارا ہو جائے اور وہ اسے معمول کا پانی تصور کرنے کی غلطی نہ کرے،کہ وہ پہاڑ پر چڑھ کر اُس سے بچ نکلے گا۔اسی سلسلے میں علامہ الوسی لکھتے ہیں: [انہوں نے [اُس(یعنی پانی)سے] کہنے کی بجائے [أَمْرِ اللّٰہِ] [اللہ تعالیٰ کا حکم] کہا،تاکہ اس کی ہولناکی اور سنگینی اُجاگر ہو جائے اور بیٹا اسے پانی کا نام دینے کی بنا پر اس غلطی اور خام خیالی میں نہ رہے،کہ وہ ایک عام طرح کا پانی ہے،جس سے وہ پناہ لینے کے جانے پہچانے ٹھکانوں میں سے کسی ٹھکانے پر پہنچ کر خود کو اُس سے محفوظ و مامون کر لے گا۔ علامہ ازیں انہوں نے [اَمْرِ اللّٰہِ] بول کر اپنی بات کہ [آج کے دن کوئی بچانے والا نہیں] کی علّت اور سبب بھی بیان فرما دیا،کہ اُن کے حکم پر کسی کا زور نہیں اور ان کا عذاب کوئی ٹالنے والا نہیں۔ مزید برآں اس کے بعد انہوں(مگر جس پر وہ(یعنی اللہ تعالیٰ)رحم فرمائیں] کے ساتھ جو استثنا فرمایا،اس کی وجہ بھی بیان فرما دی،کہ جب عذاب اُن کے حکم سے ہے،تو اس سے محفوظ بھی وہی رہے گا،جسے وہ محفوظ رکھیں گے]۔
Flag Counter