Maktaba Wahhabi

27 - 83
بندگی پار کرا دے طاغوت ہوتی ہے چاہے معبود ہو یاپیشوا یا واجب اطاعت،اس بناء پر ہر قوم کا طاغوت وہ ہوگا جس سے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر فیصلے کراتے ہوں،یا اس کی پرستش کرتے ہوں یا آسمانی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں یاان امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں جنہیں وہ جانتے ہوں کہ یہ اللہ کی اطاعت نہیں۔(فتح المجید امام محمد بن عبدالوہاب کے بقول ’’طاغوت کا لفظ عام ہے چنانچہ ہر وہ شخص جو اللہ کے علاوہ پوجاجاتا ہے اور وہ اپنی اس عبادت پر راضی ہے چاہے وہ معبود بن کے ہو،پیشوا بن کے یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے بے نیاز،واجب اطاعت بن کے ہو،طاغوت ہوتا ہے‘‘(الجامع الفرید۔265) پچھلے صفحات کی بحث سے یہ تو واضح ہوجانا چاہیئے کہ پاکستان کے سیاسی شعبے میں اللہ کی ہمسر وہ ہستیاں ہیں جو قانون سازی کا حق رکھتی ہیں۔اب ہم آپ کو ان ہستیوں کے خدائی اختیارات کی کچھ تفصیل بتاتے ہیں۔ ذیل میں آپ جو حقائق پڑھیں گے وہ صرف اور صرف ان اختیارات سے متعلق ہیں جو آئین کی رو سے فی الواقع ثابت ہیں۔رہا اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی حدود سے تجاوزات کا معاملہ تو وہ ہر نظام میں ناپسندیدہ ہونے کے باوجود ممکن ہے۔نظام اسلامی ہو تو بھی فسق و فجور کا امکان ختم نہیں ہوجاتا اور اگر مشرکانہ ہو تب بھی انسانوں کی غیر آئینی دست برد اور لاقانونیت سے محفوظ نہیں ہوتا۔ چونکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے نہ اسلامی نظام غیر اسلامی ہوجاتا ہے(خوارج کے مذہب کے برعکس) اور نہ غیر اسلامی نظام کا حکم بدل کر کچھ اور بنتا ہے اسلئے اختیارات کی بدعنوانی سرے سے ہمارا موضوع نہیں۔ہم صرف ان خدائی اختیارات کی نشاندہی کریں گے جو قانونی بے قاعدگی کے زمرے میں بہرطور نہیں آتے بلکہ آئینی اور دستوری طور پر انکو باقاعدہ تسلیم کیاجاتا ہے اور جب دستور اً تسلیم کیاجات ہے تو اس شرک کو عملی کوتاہی کانام دینا سوائے جہالت یافریب کاری کے اور کچھ نہیں۔ اب جہاں تک قانون سازی(legislation) کے ان مطلق اختیارات(absolute powers) کا تعلق
Flag Counter