Maktaba Wahhabi

28 - 83
ہے تو پاکستان کا جمہوری دستور ان سے بھرا پڑا ہے۔اس کے لئے کوئی ایک آدھ دفعہ نہیں بلکہ دستوری ابواب تک مختص ہیں خصوصاً: (legislative procedure)قانون سازی کا پروسیجر(آرٹیکل 70تا77) (Financial procedure)مالیاتی پروسیجر (Presidents and Governors ordinance)صدر اور گورنروں کے آرڈیننس(آرٹیکل 141تا144) (Amendment of constitution)دستور کی ترمیم سازی(آرٹیکل 238-239) (Powers of President)صدر کے اختیارات(آرٹیکل 267) (concurrent list, legislative list)مقنّنہ کے دائرہ اختیارات میں آنے والے امور(Forth schedual)وغیرہ وغیرہ۔ یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ان طاغوتوں کو جن امور میں قانون سازی کا حق حاصل ہے آئین کے Forth schedualمیں،legislative list خاص کر concurrent listکی رو سے ان میں صرف by lawsہی نہیں(جن کا نام لے کر مسلمانوں کو گمراہ کیاجاتا ہے کہ کیا ٹریفک قوانین بھی قرآن و حدیث سے لئے جائیں گے) بلکہ زندگی موت کے تمام معاملات پر مشتمل تعزیراتی،مالیاتی،سیاسی،اقتصادی،سماجی،تہذیبی،تعلیمی،اور بین الاقوامی قوانین سمیت سب ہی نظام آتے ہیں۔اور یہ ساری قانون سازی بلکہ دستور سازی اللہ کے نازل کردہ احکامات کی کسی بالا تر سند کی براہ راست پابند نہیں کہ آپ مقنّنہ(1)یعنی قانون ساز اسمبلیاں۔سے استفسار کر سکیں کہ یہ حکم آپ نے کس آیت یا حدیث سے لیا ہے ؟اگر قانون دان پورے دستور میں کسی ایسی بالاتر سند کی نشاندہی کر سکیں تو ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔ ملکی دستور میں عوامی نمائندوں کے یہ اختیارات دیکھ کر آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کی
Flag Counter