Maktaba Wahhabi

41 - 83
يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾(النسآء:60) ’’اے نبی!تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئی ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘ مجالس شرک کی رکنیت حرام تو ہے ہی مگر یہ حرام کی وہ قسم ہے جو شرک کہلاتی ہے۔حتی کہ شرک کا بھی یہ عام سا درجہ نہیں بلکہ شرک کی وہ قسم ہے جو اللہ کی ہمسری کہلاتا ہے۔انسانوں کے لئے تشریع اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ وحدہ لا شریک کا حق ہے۔جو شخص اس میں اللہ کا شریک بنتا ہے شریعت کی زبان میں وہ عام مشرک نہیں بلکہ طاغوت کہلاتا ہے۔بقول مولانا مودودی: ’’طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنے جائز حق سے تجاوز کر گیا ہو قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرمانبرداری ہی کو حق مانے،مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے۔دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبرداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے یہ کفر ہے۔تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا
Flag Counter