Maktaba Wahhabi

37 - 71
میں ہماری طرف سے تو ہی کافی ہوجا‘‘ پھر کیا ہوا؟ رات کے تیسرے پہر میں چیخ وپکار ہونے لگی کہ مامون مر گیا۔ امام احمد کہتے ہیں اس خبر سے ہم خوش تو ہوئے،لیکن یہ خوشی عارضی رہی،کیونکہ مامون کے بعد ’’معتصم‘‘ خلافت کا والی ہوگیا،احمد بن داؤد معتزلی اس کے ساتھ چمٹا رہتا تھا،جس سے خلق قرآن کا فتنہ بہت شدت اختیار کرگیا،امام صاحب کے دونوں پیروں میں بیڑیاں ڈال کر بعض قیدیوں کے ساتھ ایک کشتی میں سوار کرکے دار الخلافہ بغداد بھیجا گیا،اس سفر میں ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں،راستے میں ان کے ساتھی محمد بن نوح انتقال کرگئے،امام صاحب نے ان کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔ امام صاحب بصد مشقت واذیت ماہ رمضان میں جب بغداد پہنچے تو ان کو جیل خانہ کے حوالہ کردیا گیا،اسی میں تقریباً اٹھائیس مہینوں تک پاؤں میں بیڑیوں سمیت نماز ادا کرتے رہے،اس طویل وسنگین اسیری کے بعد معتصم نے ان کو جیل سے نکال کر اپنے پاس حاضر کیا،اور ان کے پیروں میں مزید اتنی بیڑیاں ڈال دیں کہ امام صاحب کے بقول بیڑیوں کے بوجھ سے میرا چلنا اٹھنا،بیٹھنا ناقابل بیان حد تک دشوار تھا،صبح ہوئی تو معتصم کے بلاوے پر مجھے اس کے سامنے پیش کیا گیا،اور مجلس مناظرہ قائم کی گئی،جس میں معتصم کے ساتھ اس کے قاضی اور موالی بھی موجود تھے،جو معتزلی اور قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے،اور امام صاحب کو زبر دستی اس کا قائل کرنا چاہتے تھے،اس مسئلہ میں تین روز تک مناظرہ ہوتا رہا،ہر مرتبہ امام احمد نے قرآن وحدیث کے دلائل سے مغلوب کیا،اور جرأت کے ساتھ بلند آواز میں ان کا منہ توڑ جواب دیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے،انجام کار عاجز آکر معتصم نے حکم دیا کہ امام احمد کو پکڑ کر زمین پر گھسیٹا جائے،ایسا ہی کیا بھی گیا،اسی پر اکتفا نہیں
Flag Counter