Maktaba Wahhabi

45 - 71
زبانوں میں ان کے حالات وخدمات پر مشتمل کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں،یہاں پر ان کی زندگی کے آخری ایام وحالات اور حسن خاتمہ کا مختصر ذکر مقصود ہے،جو اس حقیر رسالہ کا ذیلی موضوع ہے۔ حسن خاتمہ کے بیان میں اب تک جن برگزیدہ اہل اللہ اور اصحاب علم وفضل کے جو حالات ذکر کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کو من جانب اللہ دنیاوی مصائب وآلام کی آزمائش سے گذرنا ناگزیر ہوتا ہے،ان کے اسلام،ایمان اور حق پر ثابت قدمی کا امتحان لیا جاتا ہے،پس امام بخاری اس سے کیسے مستثنیٰ رہ پاتے۔ امام بخاری کے امتحان وآزمائش کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ جب امام بخاری کے درس حدیث کی شہرت ومقبولیت ہر چار جانب پھیلتی گئی،یہاں تک کہ بقول امام ابو حاتم ’’شہر بغدادمیں امام بخاری کا حلقۂ درس تقریباً چالیس ہزار حاضرین پر مشتمل تھا،شہر بخارا کا گورنر ’’خالد بن احمد ذہلی‘‘ نے یہ غیر معمولی شہرت دیکھ کر قاصد کے ذریعہ امام بخاری سے درخواست کی کہ شاہی محل میں تشریف لاکر مجھے اور شاہ زادوں کو صحیح بخاری اور تاریخ کا درس دیں،لیکن امام صاحب نے انکار کرتے ہوئے قاصد سے کہا ’’میں علم کو شاہی دربار میں لے جاکر ذلیل نہیں کروں گا،یہ تو سراسر علم کی بے قدری ہے‘‘اس جواب کے بعد خالد ذہلی نے دوبارہ امام صاحب سے درخواست کی کہ اگر آپ شاہی محل میں آنا پسند نہیں کرتے تو شاہ زادوں کے لیے درس کا ایک خاص وقت مقرر کردیں جس میں اور لوگ شریک نہ ہوں‘‘ اس پر امام بخاری نے فرمایا:علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے،اس میں ہر خاص وعام کا حق برابر ہے،اگر تمہیں علم کا شوق ہے تو میری درس گاہ یا مسجد میں آکر مستفید ہو،اگر یہ طریقۂ تعلیم تمہیں ناپسند ہو تو
Flag Counter