Maktaba Wahhabi

46 - 71
تم حاکم ہو،مجھے درس سے روک دو،تاکہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے دربار میں مجھے عذر ہو کہ میں نے کتمان علم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔ یہ جواب سن کر حاکم بخارا سخت غضب ناک ہوا،اور امام صاحب کو شہر بدر کرنے کے چکر میں پڑ گیا،لیکن ان کی مقبولیت ومحبوبیت تمام مسلمانوں کے دلوں میں اس قدر جمی ہوئی تھی کہ وہ بزور حکومت بھی کچھ نہیں کرسکا،مایوس ہوکر اس نے یہ تدبیر کی کہ امام صاحب کے بعض حاسدین ومعاندین نامور فقہاء کو اس بات پر آمادہ کیا کہ امام صاحب پر ایسا الزام عائد کیا جائے جس سے تمام مسلمان ان سے بددل ہوکر نفرت کرنے لگیں۔ ان فقہاء نے امام صاحب کے علمی فضائل وکمالات اور ان کی مقبولیت عامہ کی شان وشوکت کو پامال کرنے کے لیے ان پر یہ تہمت لگائی کہ ’’وہ قرآنی الفاظ کو مخلوق کہتے ہیں‘‘ اس گھڑنت تہمت کو اس قدر شہرت دی گئی کہ شہر میں ایک طوفان برپا ہوگیا،اور امام صاحب کو شہر بدر ہونے کا شاہی حکم دیا گیا،اس کے بموجب امام صاحب نے شہر بخارا سے نکلتے وقت اللہ سے فریاد کی: ’’اللھم أرھم ما قصدوني بہ في أنفسھم وأولادھم وأھالیھم‘‘ (اے اللہ! جس چیز کا مجھ پر ان لوگوں نے ارادہ کیا ہے تو وہی چیز ان کی ذات اور اہل وعیال میں دکھا) اس کے چند دن کے بعد ہی اس دعا کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ مرکزی حکومت خراسان کے حکمرانوں کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ ’’حاکم بخارا خالد بن احمد ذہلی‘‘ کو گدھے پر تکلیف دہ پالان رکھ کر بیٹھایا جائے،اور شہر میں گھمایا جائے‘‘ اس ذلت ورسوائی کے بعد اس کو جیل خانہ میں ڈال دیا گیا،اوراسی میں اس کی موت ہوئی۔
Flag Counter