Maktaba Wahhabi

47 - 71
اسی طرح اس کے تمام شریک کار مفسدین میں سے ہر ایک کسی نہ کسی آفت ومصیبت میں مبتلا ہوا،کسی کو اپنی جان میں اور کسی کو اپنی اولاد میں روز بد دیکھنا پڑا،ان مفسدین کا سرغنہ ’’حریث بن ورقاء‘‘ جو مشہور فقہاء حنفیہ میں شمار کیا جاتا تھا،اس کو اپنے گھر والوں میں ناقابل بیان ذلت اٹھانی پڑی۔ شاہی حکم سے امام بخاری شہر ’’بخارا‘‘ چھوڑ کر ’’بیکند‘‘ نامی بستی میں پہنچے،چونکہ معاندین ومفسدین نے مذکورہ تہمت کی تشہیر اور پروپیگنڈہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی،اس تہمت کی خبر ’’بیکند‘‘ میں پہلے ہی پہنچ چکی تھی،وہاں کے لوگ دو فریق ہوگئے تھے،ایک فریق امام بخاری کو اس الزام سے بری سمجھتا تھا،دوسرا مفسدین کا ہم نوا تھا،اس اختلاف کی وجہ سے امام بخاری نے ’’بیکند‘‘ میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا،اور ’’سمر قند‘‘ کی جانب روانہ ہوگئے،اور ’’سمر قند‘‘ کے قریب موضع ’’خرتنک‘‘ میں اپنے ایک رشتہ دار ’’غالب بن جبریل‘‘ کے مکان پر فروکش ہوئے۔ عبد القدوس بن عبد الجبار سمرقندی کا بیان ہے کہ ایک رات میں نے امام صاحب کو نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے سنا ’’اللھم قد ضاقت علي الأرض بما رحبت فاقبضي‘‘(اے اللہ ! تیری زمین کشادہ ہونے کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے،مجھے اپنے پاس بلا لے)یہ دعاء قبول ہوئی،ابھی ایک مہینہ بھی گذر نہیں پایا تھا کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ خرتنک کے ’’غالب بن جبریل‘‘ جن کے یہاں امام بخاری مقیم تھے،کہتے ہیں کہ ’’امام صاحب چند روز تک صحیح وسلامت رہے،پھر بیمار ہوگئے،اسی اثناء میں اہل سمرقند کے اصرار پر جب سمر قند جانے کے لیے تیار ہوئے تو یہ خبر معلوم ہوئی کہ بخارا کا فتنہ سمر قند بھی پہنچ گیا ہے،اور وہاں بھی لوگ دو گروہ ہوگئے ہیں،ایک موافق،دوسرا
Flag Counter