Maktaba Wahhabi

44 - 74
قرابت اور مراتب دونوں صفات مشترک ہو جاتیں تو وظیفہ کی تعیین میں اعتراض کی گنجائش بھی پیدا ہو جاتی بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت واضح طور پر نمایاں نہ ہوتی۔ مثلاً: ۱۔ حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن ابی سلمہ (یہ ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے تھے۔) کا وظیفہ چار ہزر درہم مقرر کیا تو عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن جحش نے، جن کا وظیفہ د و ہزار مقرر کیا گیا تھا‘ یہ اعتراض کر دیا کہ ہمارے باپوں نے ہجرت بھی کی تھی اور جنگ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس بنا پر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن ابی سلمہ کو ہم سے زیادہ دے رہے ہیں تو اس کا جواب حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیا کہ ’’ میں ان کو اس مقام کی بنا پر زیادہ دے رہا ہوں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انہیں حاصل تھا۔ جو شخص اس سلسلہ میں مجھ پر اعتراض کرتا ہے وہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ماں لائے۔میں اس کی بات مان لوں گا۔‘‘ ۲۔ دوسرا واقعہ یہ ہواکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ چار ہزر درہم مقرر کیا تو اس پر خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعتراض کر دیا ’’کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے لیے تین ہزار مقرر کئے اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یے چار ہزار۔ حالانکہ میں ایسے معرکوں میں بھی شریک رہا جن میں اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک نہ ہو سکے تھے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ وجہ بتائی کہ ’’اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب تھا اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب تھا۔‘‘ مندرجہ بالا معلومات کا ماخذ اسلام میں عدل اجتماعی (مصنفہ سید قطب شہید)مترجم نجات اللہ صدیقی ( صفحہ ۴۷۵،۴۷۶) ہے۔ ان معلومات میں سے بعض کی تو بخاری سے بھی توثیق ہو جاتی ہے۔ مثلاً حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بدری صحابہ کے لیے پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب بلا عنوان) اور بعض جگہ اختلاف کیا ہے ۔ مثلاً بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہاجرین اولین کا وظیفہ پانچ ہزار کے بجائے چار ہزار درہم مقرر کیا تھا۔ (بخاری۔کتاب المناقب۔باب ہجرۃ النبی و اصحابہ الی المدینۃ) اعتراض کی گنجائش کے دو واقعات تو اوپر مذکور ہوئے۔ بخاری میں ایک تیسرا واقعہ بھی مذکو ر ہے جو یہ ہے کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہاجرین اولین کا وظیفہ تو چار ہزار درہم مقرر کیا مگر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساڑھے تین ہزار۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ’’ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ کیوں کم رکھا حالانکہ وہ بھی مہاجرین اولین میں سے ہیں۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجرت اس کے ماں باپ کے ذیل میں ہوئی تھی۔ وہ اس کے برابر نہیں ہو سکتے جس نے اپنی ذات سے ہجرت کی‘‘۔(حوالہ ایضاً) مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وظائف کے تعین میں اسلامی خدمات ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت اور محبت کو ملحوظ رکھا۔اگرچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جذبہ قابل قدر اور نہایت
Flag Counter