Maktaba Wahhabi

182 - 460
ہر فرد ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔سورۃ النساء (آیت:۱۴۰) میں بھی یہ مضمون ہے۔اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا اہلِ بدعت اپنی تاویلات سے آیاتِ الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ 104۔شرک سے فرار و اجتناب: سورۃ الانعام (آیت:۷۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰٓی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ھَدٰنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْھُدَی ائْتِنَا قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} ’’کہو کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کر سکے اور نہ بُرا اور جب ہمیں اللہ نے سیدھا راستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم الٹے پاؤں پھر جائیں ؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اُس کے کچھ رفیق ہوں،جو اُس کو راستے کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔کہہ دو کہ راستہ تو وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے فرماں بردار ہوں۔‘‘ اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں،ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو،ساتھی اسے بلا رہے ہوں،لیکن حیرانی
Flag Counter