Maktaba Wahhabi

153 - 265
سامان ہوتا وہ مال غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے اور اس طرح انھوں نے اپنے آپ کو مالی طور پر بھی مضبوط کر لیا۔ قریش کو ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کی کارکردگی کا پتہ چلا تو انھوں نے شام سے تجارتی لین دین ختم کردیا جس سے ان کا سامان کوڑیوں کے بھاؤ بکنے لگا۔ ان کے عامل انھیں چھوڑ کر چلتے بنے اور وہ زبردست قحط میں مبتلا ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھی تو قریش نے رحم کی اپیل کے لیے ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا اور یہ درخواست کی کہ آپ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلا لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلح حدیبیہ میں جو شرائط طے پائی تھیں پھر ان کا کیا ہوگا؟‘‘ وہ کہنے لگے: اے محمد آپ صلہ رحمی کرنے والے اور مہمانوں کی عزت کرنے والے ہیں۔ آپ عاجز لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور حادثات زمانہ میں ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ہم آپ کے پاس امید لے کے آئے ہیں۔ آپ مہربانی فرما کر ابوبصیر کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیں، ہمارے عمال ہمیں چھوڑ کر چلتے جا رہے ہیں اور ہماری تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم صلح حدیبیہ کی اس شرط کو ختم کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی عرضی قبول کی اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس آنے کا پیغام بھیجا۔ جب خط ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو ملا تو وہ انتہائی عقیدت اور محبت کے جذبات سے پڑھنے لگے۔ آنسوؤں سے خط بھیگا جارہا تھا۔ انھوں نے خط کو اپنے سینے سے لگایا اور ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔ گزشتہ واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فدائی عمل کی واقعی بہت اہمیت اور وزن ہے،
Flag Counter