Maktaba Wahhabi

211 - 265
رہے جبکہ ان کے بھائی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہر موڑ پر اسلام اور مسلمانوں کے مددگار کے طور پر سامنے آئے۔ ان کا یہی کارنامہ ان کی فضیلت و منقبت کے لیے کافی ہے کہ انھوں نے ’’جیش العسرہ‘‘ کو غزوۂ تبوک کے موقع پر سازو سامان سے لیس کیا۔ ان کے اس کارنامے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا: ’’اے عثمان! آج کے بعد تو کوئی عمل نہ کرے تب بھی تجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔‘‘[1] مگر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ (قبول اسلام سے پہلے) دعوتِ دین میں رکاوٹ ڈالنے والے اور لوگوں کو اس دین سے روکنے والے تھے۔ ان کی بہن ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا، اچھی مسلمان ثابت ہوئیں اور اپنے دین کو بچانے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی۔ سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے پیدل ہجرت کر کے مدینہ جانے والی خاتون ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں اور انھی کے بارے میں سورۂ ممتحنہ کی یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللّٰهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ﴾ ’’اے ایمان والو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے، پھر اگر تم انھیں مومن جانو تو انھیں کفار کی طرف نہ لوٹاؤ۔‘‘[2]
Flag Counter