Maktaba Wahhabi

220 - 265
کے مطابق چلے، اس پر تنقید ہو سکتی ہے، اس سے پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے اور اس کے کیے گئے کاموں، کمیوں اور کو تاہیوں کی تفتیش ہو سکتی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو لکھتے ہیں: ’’اسلام علیکم! مجھے پتا چلا ہے کہ آپ کے جانوروں کے ریوڑ بہت بڑھ گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تو آپ کے پاس اتنا مال نہیں تھا۔ آپ نے یہ مال کہاں سے حاصل کیا؟ سب کچھ لکھیے، کچھ مت چھپائیے؟‘‘ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’اے امیر المومنین! ہماری زمینیں زرعی اور نفع بخش ہیں۔ ہم اپنے خرچ سے بچت بھی کرتے ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں پھر لکھا: ’’میں نے گورنروں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ تمھارا جواب برحق پکڑے جانے والے مضطرب شخص کے جواب کی طرح ہے۔ میں تمھارے بارے میں بد گمان ہو گیا۔ میں نے سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو تمھارے پاس بھیجا ہے، تم اپنا آدھا مال اس کے حوالے کر دو۔ اے امراء کی جماعت! تم خزانے کے چشموں پر بیٹھتے ہو، تمھیں کسی کا کوئی خوف نہیں، اپنی اولاد کے لیے جمع کرتے ہو اور اپنے آپ کو طاقت ور بناتے ہو۔ خبردار! تم شرمندگیاں اکٹھی کر رہے ہو اور آگ کے وارث بن رہے ہو۔‘‘ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس وقت وزیر مملکت کی طرح تھے، خلیفۃ المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رعایا کے حالات کی خوب خبر رکھتے تھے اور اپنے گورنروں کے احوال کا ناقدانہ جائزہ لیتے رہتے تھے۔ اور اپنے عمال کا محاسبہ بھی کرتے تھے۔ اگر رعایا گورنروں سے تنگ ہوتی اور عمال اپنی حد سے تجاوز کرتے، اسلامی قواعد کے زُمرے سے نکلنے کی
Flag Counter