پر قناعت کرلی جو ان کے رب نے ان کے لیے پسند فرمائی تھی اور وہ ہے اللہ کا قرب اور ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّ اللّٰهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، پھر وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ اللہ کے ذمے سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے۔ زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے؟ لہٰذا تم اپنے اس سودے پر خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا اوریہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘[1] تاہم لڑائی اور جنگ کا معاملہ پیش نہ آیا اور قریش کے ساتھ صلح پر بات ختم ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرماتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علی! لکھو، ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔‘‘ سہیل بن عمرو، جو قریش کی طرف سے صلح کی شرائط طے کرنے آیا تھا، اس نے کہا: میں اسے نہیں جانتا، تم بس ’بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ‘ لکھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’: ’بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ‘ ہی لکھ دو۔ |