Maktaba Wahhabi

46 - 265
قرآن تو تمام شعبہ ہائے زندگی کے لیے ایک فعلی اور عملی تطبیق ہے۔ قرآن پاک انسان کو اس بات کا سبق دیتا ہے کہ اس کائنات میں تمام چیزیں ایک حساب اور اندازے کے اندر رکھ کر بنائی گئی ہیں اور یہ تمام چیزیں اتفاقات نہیں ہیں بلکہ انھیں وجود میں لانے والی ایک ذات ہے جو اس نظام کائنات کو کنٹرول کیے ہوئے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ ’’اور ہر چیز کو اس نے پیدا کر کے ایک مناسب اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔‘‘ [1] مزید فرمایا: ﴿ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ﴾ ’’بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا کیا ہے۔‘‘ [2] انسان اس کتاب ہدایت سے یہ سبق بھی حاصل کرتا ہے کہ اس کائنات میں موجود چھوٹی اور بڑی تمام چیزوں کی ایک حکمت ہے اور انھیں ضرور کسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تاہم انسان کی قاصر نگاہ عالم غیب کی حکمت تک پہنچنے سے عاری رہتی ہے اور اس کی محدود عقل جسے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اس کائنات کو نظام خلافت کے ذریعے سے آباد کرے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ ’’بہت قریب ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ (تمھارے لیے) اس میں
Flag Counter