Maktaba Wahhabi

48 - 265
وہ لوگ مختلف قبائل کی صورت میں بکھرے ہوئے تھے۔ ان کی کوئی منظم جماعت تھی، نہ کوئی قیادت اور نہ ہی وہ کسی سلطان یا بادشاہ کے ماتحت تھے۔ ان کا کام شب خون مارنا تھا۔ وہ قبیلے کے شاہسوار کی عدم موجودگی میں یا قبیلے کے شاہسواروں اور سرفروشوں کی قلت کی بنا پر اس پر حملہ کرتے اور پورا قبیلہ لوٹ لیتے۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد یہی لوگ اپنی قوم کے سردار اور قائدین بنے۔ وہ اپنے رعب ہی سے دشمن کو شکست دے دیتے۔ اور محض ایک الٹی میٹم دینے پر کئی کئی ملک اور قلعے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے۔ اور پھر یوں ہوا کہ ان کے کامیاب لشکر شہروں کے شہر فتح کرتے ہوئے سمندر کے کنارے پر جا پہنچے۔ اس سے بھی بڑھ کر اگر انھیں معلوم ہوتا کہ سمندر پار ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اللہ کے پسندیدہ دین کو اپنا دین مانتے ہیں تو وہ سمندر کے پانی اور اس کی طوفانی موجوں کو بھی عبور کرنے پر تیار ہو جاتے۔ کافی لمبا عرصہ یہی کیفیت برقرار رہی حتی کہ جب مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور کتاب ہدایت کو چھوڑا تو وہ بہت جلد اسی حالت میں لوٹ آئے جس میں وہ اسلام سے قبل تھے۔ پھر اسی طرح مختلف قبائل میں تقسیم ہوگئے جنھیں ممالک کا نام دے دیا گیا۔ باہمی سازشیں اور دشمنوں کی چالیں انھیں کمزور سے کمزور تر کرنے لگیں۔ زمین ان کے قدموں سے سرکنا شروع ہو گئی، جنگ و فساد کے ذریعے سے یا پھر فکری لڑائی کی بنا پر۔ ان کے دوست اور دشمن سبھی ان سے بیزار ہو گئے۔ ان پر حملے ہوتے لیکن وہ حملوں کا دفاع نہ کرپاتے۔ ان سے ان کے شہر چھین لیے جاتے لیکن کوئی شخص ان کی
Flag Counter