Maktaba Wahhabi

105 - 108
انتظام عبیداللہ بن زیاد کو سونپ دیا جو بصرے کا پہلے ہی گورنر تھا اور اسے یہاں سیاسی معاملات سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی تاکید کی۔اب ابن زیاد بیک وقت بصرہ اور کوفہ دونوں شہروں کا حاکم اعلیٰ بن گیا۔ مسلم بن عقیل جب کوفہ آئے، تو ہزاروں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر حسین کے لیے بیعت کی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی وہاں آمد کےلیے اپنا اشتیاق ظاہر کیا۔مسلم بن عقیل نے اس سے یہ تاثر لیا کہ یہاں فضا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےلیے تیار اور زمین ہموار ہے۔انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ دیا کہ وہ یہ خط ملتے ہی فوراً کوفے کےلیے روانہ ہوجائیں، یہاں کے لوگ ان کےمشتاق اور منتظر ہیں۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ خط پڑھ کے مکے سے کوفے کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔راستے میں کچھ اور لوگ بھی شریک سفر ہوجاتےہیں۔لیکن صحابہ و تابعین میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کےلیے تیار نہیں ہوا،بلکہ ان میں سے جس جس کو بھی آپ کے ارادے اور سفر کا علم ہوا، تو اس نے آپ کو روکا اور اس ارادے اور سفر کو نہایت خطرناک اور اتحاد واتفاق کے خلاف قرار دیا۔(جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل پہلے بیان ہوئی) ادھر کوفے میں جب مسلم بن عقیل کی سرگرمیاں عبیداللہ بن زیاد کے علم میں آئیں تو اس نے سخت اقدامات اختیار کئے اور لوگوں کو ڈرایا دھمکایا، جس کے نتیجے میں مسلم بن عقیل کے گرد جمع ہونے والے لوگ منتشر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے سے منکر ہوگئے اور بالآخر مسلم بن عقیل بھی قتل کردیئے گئے۔قتل سے قبل مسلم بن عقیل کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ میرا تو کوفے سے زندہ بچ کر جانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہیوں کا کیا بنے گا جنہیں میرا خط مل گیا ہوگا اور وہ کوفے کےلیے روانہ ہوگئے ہوں گے۔انہوں نے ایک شخص کے ذمے یہ بات لگائی کہ وہ کسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک میرا یہ پیغام پہنچا دے کہ وہ ہرگز کوفہ نہ آئیں، اہل کوفہ جھوٹے نکلے،انہوں نے مجھے بھی دھوکہ دیا،یہاں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں جو میں نے اس سے قبل تحریر کئے تھے اور خط پہنچنے تک شاید میں قتل کردیا جاؤں۔
Flag Counter