Maktaba Wahhabi

107 - 108
دوسری،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ابن زیا د کی انتظامی مصلحت کے مقابلے میں اپنی عزت نفس اور وقار کو زیادہ اہمیت دینا۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی لچک کا مظاہرہ کیا جاتا، تو شاید یہ المیہ رونما نہ ہوتا، لیکن چونکہ اللہ کی مشیت یہی تھی،جس کی حکمت وہی بہتر جانتا ہے، اس لیے دونوں ہی اپنی اپنی بات پر مصر رہے جس کا بالآخر وہی نتیجہ نکلا جس کا اندیشہ آغازِ سفر ہی میں خیرخواہان ِ حسین رضی اللہ عنہ نے ظاہر کیا تھا۔ بہرحال ہمارے خیال کے مطابق آخرمیں اس حادثے کے وقوع پذیر ہونے کی یہی مذکورہ دو وجہیں ہیں، جس کی صورت یہ بنی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے تین باتیں پیش فرمائیں اور فرمایا کہ ان میں سے کوئی ایک بات اختیار کرلیں۔ ۱۔مجھے چھوڑ دو، میں جہاں سے آیا ہوں وہیں چلا جاتا ہوں۔ ۲۔یا مجھے یزید کے پاس جانےدو، تاکہ میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں۔یعنی اس کی بیعت کرلوں، پھر وہ خود میرے بارے میں فیصلہ کرلے گا۔ ۳۔یا مجھے کی سرحد پر جانے کی اجازت دے دو۔(البدایۃ: ۱۷۱/۸، الطبری: ۲۹۳/۴) اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہا: ’’انہیں امیر المؤمنین(یزید)کے پاس لے چلیں، وہ اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ دیں گے(یعنی بیعت کرلیں گے۔)’‘(البدایۃ: ۱۷۲/۸، الطبری: ۲۹۵/۴) یعنی اس روایت کی رُو سے انہوں سے صرف ایک ہی مطالبہ پیش کیا اور وہ تھا، بیعت کرنے کےلیے یزید کے پاس لے جانے کا، علاوہ ازیں اس میں انہوں نے یزید کےلیے’’امیر المؤمنین’‘کا لفظ بھی استعمال فرمایا۔جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اپنے سابقہ موقف سے،وہ جو بھی تھا، انہوں نے رجوع کرلیا ہے اور یزید کو امیرالمؤمنین تسلیم اور ان کی بیعت کر لینے کےلیے وہ تیار ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا آخری وقت میں اپنے موقف سے رجوع، اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص فضل وکرم تھاجس کی وجہ سے خلیفۂ وقت کے خلاف خروج اور مسلمانوں کے متفقہ دھارے
Flag Counter