Maktaba Wahhabi

40 - 108
طرح دیگر قرابت مند بھی تھے، لیکن جہاں تک سانحہ کربلا کا تعلق ہے اس پر ساری قلمرو میں کوئی عمومی رد عمل ظاہر نہیں ہوا نہ اس حادثہ ٔ الیمہ کے باعث یزید کو "ظالم و قاتل اور فاسق و فاجر" قرار دے کر اس کے خلاف کسی نے بھی خروج کو جائز سمجھا، گو ذاتی قلق اس کا کیسا بھی شدید رہا ہو۔جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ ان دونوں کے سوا باقی سب لوگوں نے یزید کی حکومت یا(خلافت)کو درست تسلیم کرلیا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں قیام پذیر تھے اور شاید سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے میدان اب صاف ہےچنانچہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کاروائیوں میں مصروف تھے۔۶۳ھ میں حسب تحریر حافظ ابن حجر عسقلانی اہل مدینہ میں سے متعدد حضرات کی جن میں بعض صحابہ بھی تھے، ہمدردیاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں۔انہی دنوں ایک وفد مرتب ہوا۔جو "یزید " کے ہاں گیا۔یزید نے ان کی خوب آؤ بھگت کی لیکن اس وفد نے مدینہ منورہ واپس آکر یزید کے عیوب گنوانے شروع کردیے اور اس کی طرف شراب نوشی وغیرہ باتیں منسوب کرکے ان کو عوم میں خوب پھیلایا گیا۔ ((فرجعوا فأظہروا عیبہ ونسبوا إلی شرب الخمر وغیر ذٰلک))(فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام) جس کے نتیجے میں اہل مدینہ نے نہ صرف یہ کہ یزید کی بیعت سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔ ((لما انتزٰی أہل المدینۃ مع عبداللّٰه بن الزبیر خلعوا یزید بن معاویۃ))(فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام) بلکہ گورنر مدینہ عثمان بن محمد پر دھاوا بول دیا اور خاندان بنی امیہ کو محاصرے میں لے لیا۔(تاریخ طبری، ۳۷۰/۴،طبع مطبعۃ الاستقامۃ) لیکن اہل مدینہ کے اس طرز عمل کو اہل خیر و صلاح نے بالکل پسند نہیں کیا اور اس سے برملا اظہار بیزاری فرمایا جیسا کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح بخاری
Flag Counter