Maktaba Wahhabi

88 - 108
﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً﴾(النساء ۹۳/۴) پس قتل کی اباحت و حرمت میں ہاشمی و غیر ہاشمی، سب مسلمان یکساں درجہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔اب واضح ہوگیا کہ اس طرح کی بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کرسکتا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔’’یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔‘‘بالکل غلط ہے۔ بلا شبہ حضرت حسن و حسین اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ’’حسنین تمہارے پاس میری امانت ہیں۔’‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔ ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ۱۔یہ کہ جس طرح مال امانت رکھا جاتاہے اور اس کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو یہ صورت تو ہو نہیں سکتی کیونکہ مال کی طرح آدمی امانت رکھے نہیں جاسکتے۔ ۲۔یا یہ مطلب ہوگا کہ جس طرح بچوں کو مربیوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔تو یہ صورت بھی یہاں درست نہیں ہوسکتی کیونکہ بچپن میں حسنین اپنے والدین کی گود میں تھے۔اور جب بالغ ہوئے تو اور سب آدمیوں کی طرح خودمختار اور اپنےذمہ دار ہوگئے۔ اگر یہ مطلب بیان کیاجائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان کی حفاظت و حراست کا حکم دیا تھا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ امت کسی کو مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اس سے آپ کی غرض ان کی حمایت ونصرت تھی۔تو اس میں ان کی
Flag Counter