Maktaba Wahhabi

92 - 108
اور ان کے مابین اختلاف واقع(یعنی شدید)ہوگا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ رائے قبول نہیں کی اور لڑنے کے عزم پر قائم رہے اور لشکر کو مرتب کرنا شروع کردیا۔‘‘ اس کے نتیجےمیں جب جنگ جمل ہوئی، جس کا سبب حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم کا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کا مطالبہ بنا تھا، اس کے لیے یہ تینوں حضرات اپنے اعوان و انصار سمیت بصرہ آئے تاکہ وہ اپنے اس مطالبے پرعمل درآمد کےلیے قوت فراہم کریں۔حضرت علی کے علم میں جب یہ بات آئی کہ یہ حضرات اس مقصد کےلیے بصرہ آگئے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس لشکر کا رُخ، جسے انہوں نے شام کے لیے تیار کیا تھا، بصرے کی طرف موڑد یا تاکہ ان کو بصرے میں داخل ہونے سے روکیں اور اگر داخل ہوگئے ہوں تو ان کو وہاں سے نکال دیں۔اس موقعے پر بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ راستے میں اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملے اور ان سے کہا۔ ’’میں نے آپ کو منع کیا تھا لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی، کل کو آپ اس حالت میں قتل کردیئے جائیں گے کہ کوئی آپ کا مددگار نہیں ہوگا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو تو مجھ پر ہمیشہ اس طرح جزع فزع کرتا ہے جیسے بچی جزع فزع کرتی ہے، تو نے مجھے کس بات سے منع کیا تھا جس میں میں نے تیری نافرمانی کی؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے پہلے میں نےآپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تاکہ آپ کی موجودگی میں یہ سانحہ نہ ہو، تاکہ کسی کوکچھ کہنے کا موقعہ نہ ملے؟ کیا قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ اس وقت تک لوگوں سے بیعت خلافت نہ لیں جب تک ہر شہر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے پاس ان کی بیعت کی اطلاع نہ آجائے؟ اور میں نے آپ کو یہ بھی کہا تھا جس وقت یہ خاتون(حضرت عائشہ)اور یہ دو مرد(حضر ت طلحہ وزبیر)(قصاص عثمان کا مطالبہ لے کر)نکلے،کہ آپ گھر میں بیٹھے رہیں۔یہاں تک کہ یہ سب باہم صلح کرلیں۔لیکن آپ نے اب سب باتوں میں میری نافرمانی کی۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ، ۲۴۵/۷) پھر جب جنگ جمل شروع ہو گئی اور مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا۔
Flag Counter