Maktaba Wahhabi

96 - 108
حکمراں)دلچسپی لینے لگا، حالانکہ اسے اس سے قبل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ذلیل ورسوا اور اس کے لشکرکو مغلوب ومقہور کرچکے تھے، لیکن شاہ روم نے جب دیکھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ و پیکار میں مشغول ہوگئے ہیں تو وہ اپنی فوج کی ایک بڑی تعداد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعض علاقوں کے قریب لےآیا اور اپنی حرص وطمع کے دانت تیز کرلیے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے لکھا: ’’اللہ کی قسم! اے ملعون! اگر تو باز نہ آیا اور اپنے علاقے کی طرف واپس نہ لوٹا تو میں تیرے مقابلے کے لیے اپنے چچازاد(حضرت علی رضی اللہ عنہ)سے صلح کرلوں گا اور تجھے تیرے سارے علاقے سے باہر نکال کر تجھ پر زمین، تما م تر فراخی کے باوجود، تنگ کردوں گا۔‘‘ یہ خط پڑھ کر شاہ روم ڈر گیا اور اپنے ارادے سے باز آگیا اور صلح کا پیغام بھیج دیا۔اس کے بعد تحکیم کا مرحلہ ایا اور پھر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے صلح ہوگئی(اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے)تو ان پر سب کا اتفاق ہوگیا اور ۴۱ھ میں ساری رعایا نے متفقہ طور پر ان کی بعیت کرلی۔پھر اپنے سال وفات تک اس پوری مدت میں وہ مستقل بالامر رہے، دشمن کے علاقوں میں جہاد کا سلسلہ قائم رہا، اللہ کا کلمہ بلند رہا، اطراف و اکناف عالم سے مال غنیمت کی آمد جاری رہی اور مسلمان اس دور میں راحت سے رہے، عوام کے ساتھ ان کا معاملہ عدل و انصاف اور عفو ودرگزر کا رہا۔’‘(البدایہ، ۱۲۲/۸) فضائل و مناقب کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ،یقیناً حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے فائق اور افضل ہیں، لیکن افضل ہونے کے باوجود ان کا دورِ حکومت، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت کے مقابلے میں جیسا کچھ رہا، وہ مذکورہ تبصروں سے واضح ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امور جہانبانی کا مسئلہ اپنی گوناگوں نوعیت اور وسعت کے اعتبار سے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔اس میں زہد وورع اور فضل ومنقبت کے اعتبار سے ممتاز شخص بعض دفعہ ناکام اور اس سے کم تر فضیلت کا حامل شخص کامیاب رہتا ہے۔ اس لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک افضل شخص کو چھوڑ کر یزید کو اپنا جانشین بنایا، تو اس میں یقیناً یزید کے اندر اہلیت و صلاحیت کے علاوہ بہت سی حکمتیں اورمصلحتیں بھی
Flag Counter