Maktaba Wahhabi

98 - 108
ولید نے کہا اور وہ عافیت پسند شخص تھا۔ ((فانصرف علی اسم اللّٰه حتی تأتینا مع جماعۃ الناس)) ’’اللہ کا نام لے کر جائیے! اور لوگوں کے ساتھ ہمارے پاس آجائیے گا۔‘‘ دوسرے روز سارا دن گزرجانے کے بعد رات کو ولید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلونے کےلیے آدمی بھیجے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: "صبح ہولینے دو! پھر دیکھا جائے گا، تم بھی دیکھنا ہم بھی جائزہ لیں گے۔" وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اصرار نہیں کیا۔لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ اسی رات کو مدینے عازم مکہ ہوگئے اور اپنے بیٹوں،بھائیوں،بھتیجوں اور تمام اہل خانہ کو بھی ساتھ لے لیا، صرف ان کے بھائی محمد بن حنفیہ نے نہ صرف ساتھ جانے سے انکار کردیا بلکہ خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اس قسم کے اقدام سے روکنے کی کوشش کی۔چنانچہ چھوٹے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اس موقعے پر اپنے برادرِ اکبر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو حسب ِ ذیل نصیحت کی۔ ’’بھائی جان! آپ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں، مخلوق میں آپ سے زیادہ کوئی حق دار نہیں ہے جس کے لیے میں خیر خواہی ذخیرہ کرکے رکھوں(یعنی آپ کو اپنی خیر خواہانہ نصیحت کا سب سے زیادہ حق دار سمجھتا ہوں)آپ اپنے ساتھیوں کو حتی الامکان یزید سے اور شہروں سے دور رکھیں۔پھر اپنے قاصد لوگوں کی طرف بھیجیں اور انہیں اپنی خلافت کی دعوت دیں، اگر وہ آپ کی بیعت کرلیں تو اس پر اللہ کا شکر کریں اور اگر لوگ آپ کے سوا کسی اور پر متفق ہوجائیں تو اس سے اللہ آپ کے دین میں کوئی کمی کرے گا نہ آپ کی عقل میں اور اس سے آپ کی مروت ختم ہوگی نہ آپ کی فضیلت۔مجھے خدشہ ہے کہ اگر آپ نے کسی شہر میں قیام کیا اور لوگوں کا آپ کے پاس آنا جانا ہوا تولوگ آپس میں مختلف ہوجائیں گے، کچھ آپ کے ساتھ اور کچھ آپ کے مخالف، اور وہ آپس میں لڑیں گے تو آپ ہی سب سے پہلا نشانہ بن جائیں گے۔۔۔‘‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے جوا ب میں یہی کہا،بھائی! میں اپنے(مکہ)جانے کے
Flag Counter