Maktaba Wahhabi

80 - 120
سید احمد رائے بریلوی،شاہ اسماعیل دہلوی،مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے بلند پایہ محققین واہل نظر نے جب یکے بعد دیگرے مختلف ادلہ وبراہین سے تصور شیخ کے عمل کی مشروعیت یا جواز پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے تو پھر قرین انصاف نہیں کہ کوئی صوفی،کوئی ولی اور کوئی مرید اس عمل سے وابستگی میں خیر تصور کرے۔اگر ان تمام ادلہ وبراہین کے باوجود بھی کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کا عمل ہوائے نفس یا اندھی تقلید پر مبنی ہے،دین وشریعت سے اس کا کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ زیر نظر کتاب میں ہم نے خصوصیت سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اپنی طرف سے زیادہ کچھ نہ کہہ کرکے ارباب تصوف اور اہل طریقت کی عبارات واقتباسات سے معلومات فراہم کی جائیں،تاکہ پڑھنے والے پوری طرح سے مطمئن رہیں اور انہیں کسی قسم کے شک وشبہہ میں مبتلا ہونے کا موقع نہ ملے۔اس التزام کے پیش نظر بعض مقامات پر ضرورت پڑنے پر ہمیں ثانوی درجہ کے مراجع کا بھی سہارا لینا پڑا ہے۔ ضرورت ہے کہ ان حقائق کو سامنے رکھ کر اپنے اعتقاد وعمل کا جائزہ لیا جائے،اور اس بنیادی اصول کو ہمیشہ مد نظر رکھا جائے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی تعلیمات ہی دراصل رشد وہدایت اور صلاح وفلاح کا منبع ہیں۔کسی بھی انسان کا قول وعمل اسی وقت تک قابل قبول اور لائق اتباع ہے جب تک ان تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔تصوف میں تزکیہ وتربیت کے لیے کسی شیخ یا پیر کی شخصیت کو کلیدی حیثیت دینے کے بعد اس کے ارد گرد تعظیم وتکریم،سطوت وہیبت اور اکبار واجلال کا ایسا ہالہ قائم کردیا گیا جو بدیہی طور پر دین کے مبادیات اور شریعت کے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس طرح کے تصورات وعقائد شعائر اسلامی کی توہین اور قوانین شرعیہ کے استخفاف کا مظہر ہیں۔لامحدود تصرفات،غیب دانی،مشکل کشائی،مصیبت میں دست گیری،نظام عالم کی تدبیر اور اس طرح کی درجنوں صفات وخصوصیات سے اولیاء ومشائخ کو متصف گردانا گیا،
Flag Counter