ضرورت کے وقت تصور شیخ کی مخصوص شکل بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اگر مرید کے ساتھ دوسرے لوگ بھی موجود ہوں اورایسے موقع پر اسے تصور شیخ کی ضرورت درپیش ہواورمذکورہ مخصوص طریقے پر اس عمل کو انجام دینے میں اسے حیا محسوس ہورہی ہوتوایسی صورت میں اپنے دل ہی میں شیخ سے جو کچھ عرض کرنا ہو عرض کرلے۔[1] قبروں میں مدفون مشائخ سے ’’تصور شیخ ‘‘ کا عمل: رابطہ یا تصور شیخ کا عمل زندہ پیروں ہی کے لیے محدود ومخصوص نہیں ہے،بلکہ صوفیاء کے نزدیک مردوں سے بھی اس قسم کا تعلق قائم رکھا جاسکتا ہے اوراس ذریعے سے ان سے وہ فوائد اورمقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جن کا ذکر گذشتہ صفحات میں ہوچکا ہے۔مردہ پیر کے ساتھ ’’تصورشیخ ‘‘ کے عمل کے بھی مخصوص آداب وضوابط ہیں جن کا تذکرہ ایک نقشبندی مؤلف نے یوں کیا ہے: ’’جان لوکہ اموات کے ساتھ ’’رابطہ ‘‘ کی صورت یہ ہے کہ مرید اپنے نفس کو علائق عنصریہ سے اوراپنے باطن کو قیود طبیعیہ سے خالی کرلے،اپنے قلب کوبھی علوم ونقوش اورخواطر کو نیہ سے عاری کرلے،پھر اس میت کی روحانیت کوا یسا نورتصور کرے جو کیفیات محسوسہ سے خالی ہواوراس نورکی اپنے دل میں حفاظت کرے تاآنکہ اس میت کی طرف سے کوئی فیض آوے یااس کے احوال میں سے کسی حال کا ادراک ہو،کیونکہ کاملین کی روحانیت فیوض کا منبع ہواکرتی ہے پس جس نے منبع ہی کو اپنے قلب میں داخل کرلیا فیض سے یقینی طورپر ہمکنار ہوا۔ اوراگر ’’رابطہ‘‘ میت کی قبر کے پاس ہی ہو توضروری ہے کہ صاحب قبر کوپہلے سلام عرض کرے،پھر داہنی جانب اس کے پاؤں کے قریب کھڑا ہواوراپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ہاتھ کے اوپر باندھے،اپنا سر سینے کی طرف جھکائے،پھرایک مرتبہ سورہ فاتحہ،گیا رہ مرتبہ سورہ اخلاص اورایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اوراس کا ثواب اس میت کو بخش |