Maktaba Wahhabi

102 - 241
امن، کبھی انحراف نہیں کرتے تھے۔ ذیل میں ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلے گا کہ وہ اپنی کابینہ کے اراکین میں کیا کیا خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ انھیں نئے عہدیدار کی ضرورت پڑی۔ صحابۂ کرام سے فرمایا کہ کوئی اہل آدمی بتاؤ، ایک معاملہ سر پہ آن پڑا ہے۔ صحابۂ کرام نے ایک صاحب کا نام لیا۔ فرمایا: نہیں، وہ ہمارے کام کا نہیں۔ عرض کیا: آپ کو کیسا آدمی درکار ہے؟ فرمایا: مجھے ایسا آدمی چاہیے کہ جب وہ لوگوں کے درمیان ہو اور ان کا امیر نہ ہو تو یوں معلوم ہو کہ وہ ان کا امیر ہے۔ اور جب وہ لوگوں کا امیر ہو تو یوں معلوم ہو کہ وہ انھی میں سے ایک عام آدمی ہے۔ عرض کیا: یہ خوبی تو صرف ربیع بن زیاد حارثی میں پائی جاتی ہے۔ فرمایا: بالکل ٹھیک کہتے ہو، چنانچہ آپ نے اس انتظامی عہدے کے لیے حضرت ربیع بن زیاد حارثی کا تقرر کیا۔ خلیفۂ ثانی کسی منصب پر نئے عہدیدار کا تقرر کرتے تو اس سے عہد نامے پر دستخط کراتے اور چند صحابۂ کرام کو اُس کا گواہ بناتے تھے۔ نئے عہدیدار سے عام طور پر یہ عہد لیتے تھے کہ وہ ظلم نہیں کرے گا، نہ اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھائے گا۔ یوں وہ عہدیدار اُس طرح حلف اٹھاتا تھا جس طرح آج کل کے ڈاکٹر، جج، وزیر اور حساس عہدوں پر فائز ہونے والے افسر حلف اٹھاتے ہیں۔ حلف لینے کے بعد وہ عہدیدار کے دائرۂ اختیار کی حدود متعین کرتے: ’’میں نے تمھیں مسلمانوں کے جسم و جاں اور ان کی عزتوں کا حاکم نہیں بنایا۔ میں نے تمھارا تقرر اس لیے کیا ہے کہ تم لوگوں میں نماز قائم کرو، ان میں عطیات و وظائف اور زکات و صدقات تقسیم کرو اور عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے ان کے جھگڑے نمٹاؤ۔‘‘
Flag Counter