Maktaba Wahhabi

135 - 241
میں ایمان سمایا تھا۔ جن کی شریانوں میں ایمان خون بن کر دوڑتا تھا۔ ایسے ماہر نفسیات جو نفس کی اچھی بُری کیفیات سے بخوبی واقف تھے۔ ایک روز منادی کرائی کہ تمام لوگ مسجد میں آئیں۔ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ’’صاحبو! ایک وقت وہ بھی تھا کہ بنی مخزوم میں میری جو خالائیں رہتی تھیں، میں ان کے اونٹ بکریاں چراتا اور ان کے لیے میٹھا پانی ڈھوتا تھا۔ اس محنت، مشقت کے عوض مجھے مٹھی بھر کھجوریں یا منقے دیے جاتے تھے۔‘‘ اتنا کہہ کر منبر سے اتر آئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا: ’’امیر المومنین! بھلا یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ فرمایا: ’’ابن عوف! میرے جی نے مجھ سے اکیلے میں کہا کہ تو امیرالمومنین ہے۔ تیرے اور اللہ کے درمیان آج کسی کی حاکمیت نہیں۔ تجھ سے افضل اور کون ہے! میں نے چاہا کہ اسے اس کی اوقات بتاؤں۔‘‘ [1] منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی عرصے تک اپنی معاش کا بندوبست خود کرتے رہے۔ تجارت کا آبائی پیشہ اپنایا تھا۔ لوگوں سے معاملت کرتے تھے۔ قرض لیتے دیتے تھے۔ سامانِ تجارت بیچتے اور نفع پاتے تھے۔ ایک دفعہ شام کے تجارتی سفر پر جانے کے لیے ایک قافلہ تیار کیا۔ چار ہزار درہم کی ضرورت پڑگئی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی طرف آدمی دوڑایا کہ اس سے لے آؤ۔ انھوں نے کہلا بھیجا کہ بیت المال سے لے لیجیے۔ بعد میں لوٹا دیجیے گا۔ قاصد نے آکر پیغام دیا تو بذات خود ان کی طرف گئے۔ فرمایا: ’’تمھی نے کہا ہے کہ بیت المال سے روپیہ لے لو؟! ارے! روپیہ آنے سے پہلے اگر میں مرگیا تو تم لوگ کہوگے کہ یہ روپیہ امیرالمومنین نے لیا تھا،
Flag Counter