Maktaba Wahhabi

171 - 241
عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کا مصدقہ بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم ابوبکر(رضی اللہ عنہ)کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے بعد عمر(رضی اللہ عنہ)اور عمر(رضی اللہ عنہ)کے بعد عثمان(رضی اللہ عنہ)کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ ان تینوں کے بعد ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے کسی کو کسی سے افضل نہیں کہتے تھے۔[1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عفان تھا۔ وہ ابو عاص کے فرزند تھے۔ ابو عاص، امیہ کے بیٹے تھے۔ امیہ کا شمار دور جاہلیت کے سرکردہ افراد میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے زمانے کا بڑا نامی سردار اور قبیلۂ قریش کی بہت نمایاں شاخ بنو امیہ کا جد امجد تھا۔ بنوامیہ تجارت پیشہ تھے۔ عفان بن ابی عاص بھی بڑی باقاعدگی سے تجارتی سفر پر جایا کرتے اور کثیر منافع کما کر لایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اکثر و بیشتر ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ ان کے ایک سفر کی روداد تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ اس سفر میں انھیں جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دور جاہلیت میں ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے چچا فاکہ بن مغیرہ، صحابیِ رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے والد عوف بن عبد عوف اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے والد عفان بن ابی عاص یمن کے تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے۔ بنوجذیمہ کا ایک تاجر یمن میں وفات پا گیا تھا۔ یہ لوگ واپسی پر اس کا مال بھی لیتے آئے جو وہاں رہ گیا تھا۔ ارادہ تھا کہ تاجر کا مال وہ اس کے ورثا کے حوالے کریں گے۔ دیارِ بنو جذیمہ میں پہنچے تو ایک آدمی خالد بن ہشام اس مال کا دعویدار ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ مال
Flag Counter