Maktaba Wahhabi

235 - 241
نے مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ قائم کیا۔ بعدازاں مسجد نبوی کی تعمیر عمل میں آئی اور میثاق مدینہ تحریر کیا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رشتۂ مواخات حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے ساتھ قائم ہوا۔[1] اگلے مرحلے میں غزوات و سرایا کی تحریک کا آغاز ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دلیرانہ کردار نمایاں طور پر سامنے آیا۔ غزوۂ بدر میں فریقین نے ایک دوسرے کو دعوت مبارزت دی تو مسلمانوں کی جانب سے جو تین شہ زور آگے بڑھے ان میں ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے مد مقابل ولید بن عتبہ کو دیکھتے ہی دیکھتے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ غزوۂ بدر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دختر رسول حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوگئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ان کی تین اولادیں تھیں۔ حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت ام کلثوم۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے چھے ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کیا تو گرتے ہوئے جھنڈے کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تھام لیا۔ مشرکین مکہ کے علمبردار ابوسعد بن ابی طلحہ نے دعوت مبارزت دی تو وہ آگے بڑھے اور مقابلے میں آئے۔ دونوں نے دو دو چار چار ہاتھ مارے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ ایسا مارا کہ مد مقابل زمین پر جارہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فورا پلٹ آئے اور اس کا کام تمام نہیں کیا۔ کسی نے کہا کہ اس کا کام تمام کرکے ہی آتے۔ انھوں نے جواب دیا: کہ بچارے کی شرمگاہ کھل گئی تھی مجھے اس پر ترس آگیا تھا۔
Flag Counter