Maktaba Wahhabi

41 - 241
تو اُنھوں نے پیش قدمی کا ارادہ ملتوی کردیا۔ بعدازاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان اِس سلسلے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ خود مدینہ پر مرتدین کے حملے کا خطرہ ہے۔ اس صورت میں اتنا بڑا لشکر شام بھیج دیا گیا تو مدینہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہو جائے گا۔ اِس فریق میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرفہرست تھے۔ دوسرا فریق جس میں خود خلیفۂ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اس کا موقف یہ تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں، لشکر اسامہ کو بہرصورت روانہ کر دینا چاہیے۔ پہلے فریق کا اصرار بڑھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہہ ڈالا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علم باندھ دیا ہے، بخدا! میں اُسے ہرگز نہیں کھولوں گا۔ جنگلی درندے ہم پر دھاوا کردیں، تب بھی نہیں۔[1] ایک تیسرا فریق بھی تھا جو اِس سے تو متفق تھا کہ لشکر روانہ ہونا چاہیے تاہم اُس کی رائے یہ تھی کہ لشکر کا سپہ سالار نو عمر اسامہ کے بجائے کوئی اور تجربہ کار آدمی ہونا چاہیے۔ خلیفۂ رسول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف اس سلسلے میں بے حد واضح تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر حال میں ارشاد نبوی کی تعمیل کی جائے۔ لشکر شام کی مہم پر ضرور روانہ ہونا چاہیے اور سپہ سالار بھی وہی ہونا چاہیے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منتخب کیا تھا، یعنی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما ۔ انھوں نے اِس کا حتمی فیصلہ کیا تو تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سرِتسلیم خم کر دیا۔ آپ نے لشکر کو ہدایات جاری کرتے ہوئے فرمایا: ’’خیانت مت کرنا۔ دھوکا مت دینا۔ مثلہ (لاشوں کی بے حرمتی) مت کرنا۔ چھوٹے بچے کو، بڑے بوڑھے کو اور عورت کو قتل مت کرنا۔ کھجور کا درخت مت
Flag Counter