Maktaba Wahhabi

67 - 241
اگر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں تو ان کے خلاف جنگ نہیں لڑی جاتی۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تَو تُو بھی اُس کی طرف مائل ہو جا اور اللہ پر توکل کر۔‘‘ [1] قبولِ اسلام کی صورت میں انھیں وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں جو دیگر مسلمانوں کو حاصل ہوتے ہیں اور وہ تمام فرائض ان پر بھی عائد ہوتے ہیں جو دیگر مسلمانوں پر عائد ہوتے ہیں۔ ہاں اگر وہ پہلی بات مستردکرتے ہیں تو دوسری بات بہر صورت ماننی پڑتی ہے، یعنی وہ جزیہ ادا کریں۔ اہل ذمہ کے لیے جزیے کی حیثیت وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے زکاۃ کی ہے۔ اہل ذمہ پر جزیہ عائد کرنے کی و جہ دراصل یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا ہر فرد اسلامی ریاست سے مالی تعاون کرتا ہے۔ یہ روپیہ مختلف اجتماعی معاملات کی انجام دہی کے سلسلے میں خرچ کیا جاتا ہے۔ زکاۃ ہر مال دار مسلمان پر فرض ہے۔ اہل ذمہ چونکہ اسلامی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اسلامی ریاست کو ان کی فلاح و بہبود کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں، اس لیے قرین انصاف یہی ہے کہ وہ بھی اسلامی ریاست سے مالی تعاون کریں جو زکاۃ کے متبادل کے طور پر ان کے ذمے عائد کیا جاتا ہے۔ یوں اہل ذمہ کو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے جزیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تھا حرب و ضرب کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ، یعنی غیر جانبدار انصاف۔ دوسروں کے حقوق کی پاسداری۔ نہ کوئی زبردستی نہ جبرو اکراہ۔
Flag Counter