Maktaba Wahhabi

76 - 241
اللہ تعالیٰ زید بن خطاب رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، اگر میں شعر کہنے پر قادر ہوتا تو جس طرح تم نے اپنے بھائی کا مرثیہ کہا ہے، میں بھی اس کا مرثیہ کہتا۔ معلوم ہوتا ہے، تم نے اپنے بھائی کا بہت غم کھایا ہے۔ متمم بولا اجی! پوچھیے ہی نہیں۔ اتنا رویا ہوں، اتنا رویا ہوں کہ کوئی کیا رویا ہوگا۔ یہ آنکھ جو آپ کو کانی دکھائی دیتی ہے، اچھی بھلی تھی۔ روتے روتے چلی گئی۔ جب یہ چلی گئی تو جو سلامت بچی، اس سے آنسو بہائے۔ اتنے آنسو بہائے کہ جو آنکھ چلی گئی تھی وہ بھی دوسری آنکھ کی مدد کرنے اور رونے لگی۔ عمر بن خطاب نے متعجب ہو کر فرمایا بھئی واقعی! یہ تو بڑا ہی شدید غم ہے۔ کسی نے اپنے مرنے والے کا ایسا غم کیونکر کھایا ہوگا۔ متمم نے کہا جی ہاں لیکن ایک بات میری بھی سن لیجیے۔ آپ کے بھائی کی طرح میرا بھائی یمامہ کی جنگ میں شہید ہوتا تو میں اس کے لیے کبھی نہ روتا۔ امیر المومنین کو اس کی یہ بات نہایت بھلی معلوم ہوئی۔ دل کو بے حد تسلی ملی۔ فرمایا: جیسی اچھی تسلی تم نے دی ہے، آج تک کسی نے نہیں دی۔[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے۔ نہایت نیک طبع اور بہت عبادت گزار۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُ ن کے متعلق ایک مرتبہ ان کی بہن ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تمھارا بھائی عبداللہ اچھا آدمی ہے۔ کاش! وہ تہجد کی نماز پڑھا کرے۔[2] کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
Flag Counter