Maktaba Wahhabi

15 - 112
2) آیت مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ (شیطان کہتا ہے کہ)تیرے مخلص بندوں پر میرا کوئی زور نہ ہوگا اگر ہم صحیح حدیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ شیطان نے بہت کچھ چاہا لیکن وہ پوار نہ ہوسکا اور وہ جادو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی زندگی پر اثر انداز نہ ہوسکا اور اللہ نے اپنے نبی کو بچالیا۔ (3) جہاں تک سورہ فرقان کی آیت کا تعلق ہے تو وہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور جادو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مدینہ میں ہوا تھا لہٰذا اس آیت سے استدلال غلط ہے دوسری بات یہ ہے کہ مسحوراً کے لغوی معنی ہے۔ ’’ ذاھب العقل مفسرا ‘‘ ’’عقل کا جانا اور بگاڑ پیدا ہونا‘‘ (لسان العرب جلد6ص186) یعنی جس کی عقل ہی ختم ہوگئی ہو۔ (جیساکہ سعید خان ملتانی کی)لیکن جب ہم اس باب میں صحیح احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ایسی کوئی بات کسی حدیث میں نہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ اعتراض نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پیش کرنے کی وجہ سے کفار کرتے تھے نہ کہ جادو کی وجہ سے۔ اب ہم ان شاء اللہ مفصل جواب دیں گے۔ جادو کی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں! ’’ کتاب الجھاد باب ھل یعفی عن الذ می اذا سحر،رقم الحدیث3175 ’’ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ ،رقم الحدیث 3268 ’’ کتاب الطب باب السحر، رقم 5763، 5766 کتاب الطب باب ھل یستخرج السحر رقم الحدیث5765 ’’ کتاب الادب باب قول اللّٰه ان اللّٰه یأمرکم بالعدل، رقم الحدیث 6063 ’’ کتاب الدعوات باب تکریر الدعا ،رقم الحدیث 6391 موصوف نے حدیث کے مرکزی راوی ہشام رحمہ اللہ پرطعن کیا اور انہیں کاذب گرداناہے۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ جرح کس سے نقل کی ہے ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگایادوسرے قرآن کریم کے معنی میں تحریف کی جہاں تک تعلق امام ہشام کا ہے تو ان کو ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’وقد احتج بھشام جمیع الائمۃ ‘ (مقدمہ فتح الباری ص625)
Flag Counter