Maktaba Wahhabi

84 - 112
ہجرت کرنے کا تعلق ان منافقین کے ساتھ تھا جو مدینے کے ارد گرد رہائش پذیر تھے مصنف نے ہجرت کا تعلق عبداللہ بن ابی ابن سلول کی طرف موڑ کر حدیث کو قرآن کے خلاف ٹہرایا جو کہ مصنف کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے لہٰذا اب یہ ترتیب نزول اس طرح ہوئی کہ صحابہ کا کہنا کہ نزول آیت عبداللہ بن ابی ابن سلول کے باب میں اتری یہ وہ آیت ہے کہ جس مسئلہ میں مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔دوسری آیت کہ ’’یہاں تک کہ وہ ہجرت نہ کرلیں اللہ کے رستے میں ‘‘اس آیت کا تعلق ان منافقین کی جماعت کے ساتھ تھا جو مدینہ کے ارد گرد رہائش پذیر تھے لہٰذا دونوں کا پس منظر مختلف ہے مصنف نے پہلی آیت کا نزول دوسری آیت کے ساتھ ملاکر مفہوم کو بڑی چالاکی سے بگاڑنے کی کوشش کی۔ لہٰذا مصنف کا اعتراض بدنیتی اور جہالت پر مبنی ہے۔ الحمدللہ حدیث اعتراض سے پاک ہے۔ اعتراض نمبر 35:۔ ’’ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً ‘‘(59؍9)یہ پوری آیت سابقہ آیت پر معطوف ہے اور دونوں آیتوں میں مال فئی کے مصرف کا بیان ہے کہ ضرورت مند مہاجرین اور ضرورت مند انصار اس مال کا مصرف ہیں۔ ۔۔۔۔ان میں سے کسی آیت کے ٹکڑے کے ساتھ اور کسی قصہ کا تعلق نہ ہے۔ ۔۔۔۔۔لیکن ذرا داد دیجئے امام بخاری کی قرآن دانی کی کہ وہ اپنی صحیح میں ابوحازم اشجعی اور ایسے افسانہ گورایوں پر اعتماد کرکے بے لگان ایک قصہ کے ایک ٹکڑے کو۔۔۔۔۔’’ویؤثرون علی انفسھم ‘‘کا شان نزول قرار دیتے ہیں۔ ۔۔۔ مقصد آیت کا کچھ تھا لیکن امام بخاری نے آیت کی تقطیع کرکے ہر ٹکڑے کو الگ کرکے مضمون قرآن کو منتشر کردیا صحیح بخاری 535کتاب المناقب میں وہ قصہ ذکر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مہمان کو ایک صحابی میزبان بن کر لے گیا وہ میاں اور بیوی دونوں چراغ بجھاکر خالی چبکارے مارتے رہے کہ گویا وہ بھی کھارہے ہیں اسی طرح مہمان نے سیر ہوکر کھالیا صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو جو تم نے کیا تھا اس پر اللہ نے ’’ ویؤثرون علی انفسھم‘‘آیت کا ٹکڑا نازل فرمایا ہے۔ (قرآن مقدس۔ ۔۔۔103-104)
Flag Counter