Maktaba Wahhabi

18 - 112
بلکہ قرآن کریم تو یہاں تک فرماتا ہے : سَنُقْرِؤُکَ فَلَا تَنْسٰٓی، إِلَّا مَا شَائَ اللّٰه (الاعلی 87؍6) ’’ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم نہ بھولوگے مگر وہ جو اللہ چاہے۔ ‘‘ جب بھول اور نسیان قرآن سے ثابت ہے تو پھر صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراض کیوں ؟مولانا مؤدودی مرحوم اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں راقم ہیں کہ : ۔‘‘۔۔۔کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں (یعنی جادو کی کیفیت کے دوران)آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید بھول گئے ہوں ،یا کوئی آیت غلط پڑھی ہو۔یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو یا کوئی ایسا کلام وحی کی حیثیت پیش کردیا ہو۔ جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو۔ ۔۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادو گر کے جادو نے چت کردیا۔ لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ محسوس کرکے پریشان ہوتے رہے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن جلد6ص555-554) الحمد للہ یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ نقشہ جو مصنف نے اپنی کتاب میں کھینچا وہ بالکل لغو بکواس اور سراپا الزام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم جادو کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ جب موسٰی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا تو موسٰی علیہ السلام نے فرمایا : قَالَ بَلْ أَلْقُوْا فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعٰی،فَأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی (طہ20؍66-67) ’’موسٰی علیہ السلام نے فرمایا تم ہی ڈالوپھر ان کے سحر کے اثر سے موسٰی علیہ السلام کو خیال گزرنے لگاکہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یکدم دوڑنے لگ گئیں ،پس موسٰی علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔‘‘ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَلَمَّآ أَلْقَوْا سَحَرُوْٓا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ (اعراف 7؍116)
Flag Counter