Maktaba Wahhabi

27 - 112
سمجھ نہیں سکتا اور دوئم مصنف خیانت اور غلو میں اتنا آگے پہنچ چکا ہے کہ حق اسے نظر ہی نہیں آتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں اس طرح سے ذکر کیا ہے : ’’عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:یلقی ابراھیم اباہ آزر یوم القیٰمۃ وعلی وجہ آزرقترۃ وغبرۃ۔۔۔‘‘ (صحیح بخاری۔کتاب الانبیاء باب قول اللّٰه تعالیٰ واتخذ اللّٰه ابراھیم خلیلارقم الحدیث 3350) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گردوغبارہوگی،ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا آزرکہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تونے (میری دعا قبول کی تھی ،جو سورہ شعراء 87؍26میں ہے )مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسو ا نہیں کرونگا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہوگی۔ میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کردی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کوکہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہواہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کردوزخ میں ڈال دیں گے۔‘‘ حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں :۔ 1) ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکی کہ انکی رسوائی نہ ہو۔ 2) سورہ شعراء میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ اے اللہ مجھ کو رسوا نہ کرنا۔ 3) اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو رسوائی سے بچایا نہ کہ آزر کو۔ 4) آزر کے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوئی بجو کی صورت میں ہی اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ مذکورہ بالا نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے اور الحمد للہ کسی محدث یا مفسر نے اس حدیث کو قرآن کے خلاف نہیں سمجھا۔ لیکن مصنف کونا معلوم یہ حدیث قرآن کے خلاف کیسے نظر آئی۔ یقینا یہ ایک بدنیت انسان ہے۔
Flag Counter