Maktaba Wahhabi

30 - 112
جواب:۔ مصنف نے جھوٹ اور الزام تراشی میں ہندوپنڈت کی لکھی ہوئی کتاب رنگیلا۔ ۔۔۔کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مصنف نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف اورصرف جھوٹ ہے جس کا تعلق قرآن سے نہیں بلکہ قرآن کریم نے نکاح اور مہر کے مسئلہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی احادیث)کی طرف رجوع کا حکم صادر فرمایا ہے اب دیکھئے وہ حدیث جس پر مصنف نے بلاوجہ اعتراض کیاہے جس میں انسانی مشکلات کا حل موجودہے۔ ’’ أن امرأۃ عرضت نفسھا علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال لہ رجل یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم زوجنیھا فقال ماعندک۔ ۔۔۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب عرض المرأۃ نفسھا علی الرجل الصالح رقم الحدیث 5121) ’’ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اتنے میں ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اگر آپ کو اس کی خواہش نہ ہو تو) مجھ سے اس کا نکاح کردیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تیرے پاس کچھ ہے کہنے لگا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کچھ تو لے آ کچھ نہ ہو تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی وہ گیا پھر لوٹ کر آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم مجھ کو تو کچھ نہیں ملا لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی البتہ یہ تہہ بند(ازار) میرے پاس ہے اس میں سے آدھا ٹکڑا میں اس کو دے دیتا ہوں۔ ۔۔۔آخر وہ شخص (مایوس ہوکر) بیٹھ گیا بڑی دیر تک بیٹھا رہا (پھر چلنے کے لئے تیا رہوا )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو جاتا ہوا) دیکھ کربلایا یا کسی اور سے بلوایا اور پوچھا ،بھلا تجھ کو قرآن میں سے کیا کیا یاد ہے وہ کہنے لگا فلاں فلاں سورت اسے یاد ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا ہم نے ان سورتوں کے بدلے یہ عورت تیری ملکیت (نکاح) میں دے دی۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ان غریبوں اور مسکینوں کے لئے سہولت بہم پہنچارہی ہے جو ایک انگوٹھی دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ان کو ایسی سہولت فراہم کردی گئی کہ آتی قیامت تک ایسے لوگ نکاح سے محروم نہیں رہیں گے۔ جہاں تک مصنف کے جھوٹ اور لغو کا تعلق ہے ،لوہے کی انگوٹھی اسلام میں مالیت کا مقام نہیں رکھتی ،تومیں مصنف کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہ الفاظ قرآن کریم کی کس آیت کا ترجمہ ہے ؟کیا یہ قرآن کریم میں تحریف نہیں ؟قرآن کریم نے ایک اصول ذکرکیاہے :
Flag Counter