Maktaba Wahhabi

42 - 112
مفہوم معلوم کرلیتے۔ ۔۔۔عرض کرتا چلوں الحمد للہ امام بخاری رحمہ اللہ کی مکمل نظر قرآن کریم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تھی لیکن مصنف کی مثال ایسی ہے۔ ’’صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ‘‘ (البقرۃ2؍18) مندرجہ بالا دونوں احادیث مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے پر دلالت کرتی ہے اور معجزہ کہتے ہی اس چیز کو جو عمومی حالات سے ہٹ کر ہو۔ معجزہ کا انکارکرنا یہ تو کفر ہے اور ضلالت کی واضح دلیل ہے قرآن پاک ایک قاعدہ ذکر کرتا ہے۔ جسکومصنف اپنے غبی پن اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر رہا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے : ’’ إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَاء ُ وَمَآ أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِیْ الْقُبُوْرِ ‘‘(الفاطر 35؍22) ’’اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ۔‘‘ آیت مبارکہ میں لفظ استعمال ہوا ہے ’’یسمع ‘‘یہ مضارع کا صیغہ ہے عربی میں مضارع دوزمانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ حال اورمستقبل۔یعنی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے سنوادے یعنی سنوابھی رہا ہے اور مستقبل میں بھی سنواسکتا ہے۔ مردوں کو سنا نایہ اللہ کی قدرت ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سنا سکتے ہاں اگراللہ سنوانا چاہے تو وہ سنواسکتا ہے۔ اب ان دونوں صحیح احادیث پر غور فرمائیں ایک میں ذکر ہے کہ مردے قدموں کی آہٹ سنتے ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ قلیب بدر کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو سنایا۔ان دونوں احادیث کا مطلب ہے کہ دونوں جگہوں پر اللہ نے سنوایا نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیونکہ قرآن یہ واضح اشار ہ دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنوادے تو یہاں بھی اللہ ہی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سنوایا تو بتایئے یہ ایسی کونسی بات ہے کہ جو سمجھ میں نہیں آنے والی ہو؟ زیر بحث حدیث خاص موقع کے لئے ہی دلالت کرتی ہیں اسی لئے صحابی نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ کیا مردے سنتے ہیں ؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں یہ اس وقت تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ’’اس وقت‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ معجزہ تھا اور معجزہ ہوتا ہی ہے عمومی حالات سے ہٹ کر۔ معجزہ کا انکار انسان کو کفر تک پہنچادیتا ہے اور معجزہ کا ذکر تو قرآن کریم بھی کرتا ہے جیسے عیسی علیہ السلام کا
Flag Counter