Maktaba Wahhabi

69 - 112
’’میں مسجد میں تھا ایک شخص داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اس نے ایسی قرأت کی کہ مجھے بری معلوم ہوئی۔ پھر دوسرا شخص داخل ہوا اس نے دوسرے طریقے سے قرأت کی ۔‘‘ حدیث مذکور سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اختلاف قرآن میں نہیں بلکہ قرأت کے،لب ولہجہ میں ہے اسی وجہ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس طرح پڑھنا نا گوار گزرا۔ جب یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان ھذا القرآن انزل علی سبعۃ احرف فاقرؤواماتیسر منہ ‘‘ ’’یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے پس جو حرف تمہیں آسان ہو اس میں تم تلاوت کرسکتے ہو ۔‘‘ اور بہت سارے ممالک میں انہی سا ت حروف پر مشتمل مختلف قرأتیں رائج ہیں اصل جو نکتہ ہے وہ لہجہ ہی کا ہے نہ کہ قرآن مختلف ہیں (جیساکہ مصنف بیان کرتا ہے )اور لہجہ مختلف ہونا یہ کوئی انہونی بات نہیں مثلا،انگلش زبان کئی ممالک اور شہروں میں مختلف انداز سے بولی جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ New yorkمیں لہجہ اور انداز مختلف ہے۔ ۔۔۔۔Texasکی انگریزی زبان کا لہجہ مختلف ہے۔ ۔۔۔۔Detroitکا لہجہ مختلف ہے۔ ۔۔۔۔Chicagoکا لہجہ مختلف ہے۔ لیکن ان تمام جگہوں پر انگریزی ہی بولی جاتی ہے۔ اب آپ اردو زبان ہی کولیجئے یہ زبان تمام ہندوستان میں بولی جاتی ہے اس کے باوجود دہلی اور یوپی کے لہجے میں فرق ہے جو ہر جگہ اس لہجہ میں نہیں بولی جاتی۔ پنجاب کا لہجہ علیحدہ ہے۔ سندھ کا لہجہ الگ ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان تمام مختلف لہجوں کو اردو ہی مانتے ہیں اور یہ ایک ہی زبان ہے اسی طریقے سے حدیث میں بھی سات حرفوں کے ذکر کامطلب یہ ہے کہ سات لہجے جس پر مصنف نے اعتراض کیا ہے جو کہ ناقابل اعتراض ہے۔ رہی بات مصنف کے اس قول کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے گلے میں پھندا ڈال کر گھسیٹ کر دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لے جاتے اور ان
Flag Counter