مصنف نے ہر جگہ نہ صرف احادیث کے ترجمہ میں گڑبڑکی ہے جسکی نشاندہی پچھلے صفحات میں کی گئی ہے بلکہ کئی مرتبہ قرآن کریم کو بھی مورد الزام ٹہرایا جو واقعتا آیات وعید کا مستحق ہے علامہ سعید نے قرآن کریم پر بہتان اور جھوٹ باندھاہے اور کہا کہ قرآن مقدس میں جو بیان ہوا ہے۔ جو شئے مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہو اس سے کبھی نفع کی توقع نہ ہو تو اس کو مٹادینا چاہیے۔ یہ کس آیت کا ترجمہ ہے ؟یقینا جو شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بغض رکھے گا اس کا یہی حال ہوگا اور اس کی مت ماری جائے گی جیسے مصنف کی۔ ایک جگہ تو حدیث کا رد لیکن دوسری جگہ استدلال بھی حدیث ہی سے واہ کیا خوب! جہاں تک مصنف کے اعتراض کا تعلق ہے اگر مصنف قرآن کی تلاوت کرلیتا تو یقینا اسے اس اعتراض کی جرأت نہ ہوتی مثلا ،قرآن کریم موسی علیہ السلام کا قصہ ذکر کرتا ہے کہ جب موسی علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تو فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا لَقِیَا غُلَاماً فَقَتَلَہُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْساً زَکِیَّۃً بِغَیْرِنَفْسٍ (الکھف 18؍74) ’’چنانچہ وہ دونوں پھر چل کھڑے ہوئے حتی کہ ایک لڑکے کو ملے جسے خضر علیہ السلام نے مار ڈالا موسی علیہ السلام نے کہا تم نے ایک بے گناہ شخص کو مار ڈالا جس نے کسی کا خون نہ کیا تھا ؟‘‘ اس آیت مبارکہ میں خضر علیہ السلام سے ایک قتل کا ذکر ہے کہ وہ نفسا زکیہ یعنی بغیر کسی جرم کے اس شخص کو قتل کرڈالا اب مصنف اس آیت کے بارے میں کیا کہے گا ؟ لازما ً کوئی تاویل کرے گا۔ تو جس طرح قرآن کو سمجھنے کے لئے اچھے گمان کی ضرورت پڑتی ہے بالکل اسی طرح حدیث کو سمجھنے کے لئے بھی اچھے گمان کی ضرورت پڑے گی۔ وہاں تو محض چونٹیاں تھیں یہ بات تو مصنف کو قابل اعتراض نظر آگئی اب یہاں آیت میں تو ایک انسان ہے اس کامصنف کے پاس کیا جواب ہوگا؟ قارئین کرام ان تمام معاملات کا تعلق انبیاء کے ساتھ خاص تھا چیونٹیوں کو جلانے کے بعد اللہ کی یہ منشاء ہے کہ اس نے آئندہ ممانعت صادر فرمادی اس سے پہلے ان کی شریعت میں ممانعت نہیں ہوگی یہ عین ممکن ہے دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کی بات میں کیا حکمت ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتاہے کیونکہ جب ہم موسی اور خضر علیہم السلام کے واقعے کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں حکمتیں ہی نظر آتی ہیں لہٰذا ایمان لانا ہمارا کام |