Maktaba Wahhabi

91 - 112
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر شفقت کی واضح دلیل ہے۔ ابن ام مکتوم کے سوال پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کہ آنے والے معذوروں کو رخصت عطاکردی۔اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رخصت دی تو مصنف اعتراض کرنے والا کون؟رہی بات اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں تھا پہلے سے ہی کہ ابن ام مکتوم آئینگے (جیساکہ مصنف نے اعتراض کیا ہے )بندوں سے ہی ہوتا ہے کہ پہلے بھول جاتے ہیں پھر یاد آتا ہے۔ ۔۔۔ توعرض یہ ہے کہ مصنف اگر اس حدیث پر اعتراض سے پہلے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ لیتا تو اسے اس کا جواب اس آیت سے ہی مل جاتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’إِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِئَتَیْنِ وَإِنْ یَّکُنْ مِّنْکُم مِّئَۃٌ یَّغْلِبُوْا أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُون۔الآنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّئَۃًٌ۔۔۔۔۔۔۔ (الانفال 8؍65-66) ’اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر سوہوں تو کافروں کے ایک ہزار آدمیوں پر غالب آجائیں گے کیونکہ کافر لوگ کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ اب اللہ نے تم سے تخفیف کردی ہے اور اسے معلوم ہوا کہ تم میں ضعف ہے لہٰذا اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دوہزا ر پر غالب آئیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ آیت کی ابتداء میں معیار تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں پر بھاری رہے گا۔ لیکن بعد میں ایمان والوں کے ضعف کو دیکھ کر اللہ نے معیار کو کم کرکے ایک مسلمان کو دوکافروں پر معیار مقرر کیا اور اللہ تعالیٰ یوں بھی فرماتا ہے کہ (اب) اسے معلوم ہوا کہ تم میں ضعف ہے۔ بتائیے آیت کی ابتداء میں کیا اللہ تعالیٰ کو (نعوذباللہ )علم نہ تھا کہ اتنا کٹھن معیار قائم کیا کہ ایک مسلمان دس کافروں پر بھاری بعد میں تخفیف فرمادی کہ ایک مسلمان دو کافروں پر بھاری۔ کیا مصنف اپنی جہالت کے سبب اس آیت کو بھی کسی راوی کی سازش کہے گا ؟قارئین کرام حدیث کو مندرجہ ذیل تناظر میں دیکھیں ، جب آیت کا نزول ہوا کہ ’’لاَّ یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُوْنَ۔ ۔۔۔‘‘کہ بیٹھے رہنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہوسکتے نازل ہوئی تو ابن ام مکتوم نے عرض کیا کہ میں تو نابینا ہوں (یعنی میرے لئے کیا حکم ہے ) اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter