Maktaba Wahhabi

104 - 120
مند مرید نے بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے،حکایات اولیا ء میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے: ’’خاں صاحب نے فرمایا:میاں جی عظیم اللہ ایک شخص تھے جو خورجہ کے رہنے والے تھے،پڑھے لکھے چنداں نہ تھے معمولی فارسی جانتے تھے اورلڑکے پڑھایا کرتے تھے مگر شاہ عبدالعزیز صاحب کے صحبت یافتہ اوران کے مرید تھے اس لیے دین میں ان کی سمجھ نہایت اعلیٰ تھی،ا نھوں نے ایک مرتبہ تصورشیخ کے متعلق تقریر فرمائی اورفرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت افاضہ نہایت کامل تھی،اس لیے صحابہ کی اصلاح باطن کے لیے صرف آپ کی تعلیم کافی تھی اوران کواشغال متعارفہ بین الصوفیہ کی ضرورت نہ تھی،اوربدوں ان اشغال کے اصلاح ہوجاتی تھی،جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رفتہ رفتہ یہ قوت مضمحل ہوتی گئی اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ صوفیہ کو اصلاح باطن میں اشغال متعارفہ مثل ذکر بالجہر وحبس دم وپاس انفاس وغیرہ سے مدد لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اورانہوں نے اشغال متعارفہ سے کام لیا،یہ اشغال جنا ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے،اس لیے بدعت تھے،مگر بدعت فی الدین نہ تھے بلکہ بدعت للدین تھے،یعنی ان امور کو دین میں داخل نہیں کیا گیا تھا بلکہ جو امور شرعا ماموربہ تھے ان کی تحصیل کاذریعہ بنایا گیا تھا اوراس لیے یہ اشغال للدین تھے نہ کہ داخل دین،اس کو یوں سمجھو ایک طبیب نے نسخہ میں شربت بنفشہ لکھا،مریض کوشربت بنفشہ کی ضرورت ہے مگر بازار میں شربت بنفشہ نہیں ملتا،اس لیے وہ لکڑیاں لا تا ہے،آگ جلاتا ہے،دیگچی لاتا ہے،شکر لاتا ہے،پانی لا تا ہے،بنفشہ وغیرہ لاتا ہے اورشکر وبنفشہ وغیرہ کو دیگچی میں ڈال کر آگ پر پکاتا ہے اورشربت بنفشہ تیار کرکے نسخہ کی تکمیل کرتا ہے،تویہ لکڑیاں لانا،آگ جلانا وغیرہ زیادہ فی النسخہ نہیں،بلکہ تکمیل النسخہ ہیں،اسی طرح سمجھو کہ تحصیل مرتبہ احسان اوراصلاح نفس شرعا ماموربہ ہیں اورشریعت نے ان کا کوئی طریق خاص معین نہیں فرمایا،اس لیے یہ مامور بہ جس طریق مباح سے بھی حاصل ہوں اس طریق کو اختیار کیا جائے گا اورطریق خاص جزودین نہ ہوگا،بلکہ ذریعہ دین ہوگا۔جب یہ
Flag Counter